کتاب: نور توحید - صفحہ 61
باب: من الشرک النذر لغیر اللّٰه باب: غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز شرک ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا﴾(الدھر: ۷) ’’وہ جو نذر پوری کرتے ہیں اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جسکی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی‘‘[1] اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ مَاَ اَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُہٗ﴾(البقرۃ 270) ’’تم نے جو کچھ نفقہ خرچ کیا ہو، اور جو نذر بھی مانی ہو؛پس بیشک اللہ کو ا سکا علم ہے۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰهَ فَلْیُطِعْہُ وَ مَنْ نَذَرَ اَنْ یَّعَْصِیَ اللّٰهَ فَلَا یَعْصِہِٖ)) [2] ’’جو کوئی اللہ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جو شخص اللہ کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘ اس باب کے مسائل 1۔ اطاعت والی نذر کو پورا کرنا ضروری ہے۔ 2۔ جب یہ ثابت ہو چکا کہ نذر اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے تو پھر اسے غیر اللہ کے لیے ماننا اور پورا کرنا شرک ہے۔ 3۔ جو نذر معصیت پر مبنی ہو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔
[1] نذر ماننا مشروع عبادت اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے؛ اسی لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔جب یہ عبادت ہے تو اس کا غیر اللہ کے لیے بجالانا شرک اکبرہے۔ اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ نذریں جوقبرپرست، درگاہوں اور مزاروں کی قربت اور ان کی رضامندی حاصل کرنے کی غرض سے مانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اصحاب ُ القبور اِن کی حاجات پوری کریں اور ان کے سفارشی بنیں ، تو یہ سب بلارَیب و شک شرک فی العبادت ہیں۔پس جو شخص قبر وغیرہ کے لئے تیل کی نذر مانے تاکہ قبروں پر دیئے جلائے؛ جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا عقیدہ وعمل ہے؛ پس ایسی نذر مسلمانوں کے نزدیک بالاتفاق معصیت/اللہ کی نافرمانی ہے اور اسے پورا کرنا ناجائز ہے۔ یہی صور ت حال اس مال کی ہوگی جو صاحب قبر یا مجاوروں کو خوش کرنے کے لئے بطورِ نذر مانا گیا ہو۔آج کل قبروں کے مجاور سجادے اور گدی نشین ان لوگوں سے بالکل ملتے جلتے ہیں جو کہ لات، عُزّٰی اور مناۃ کے مجاور تھے اور ناحق، لوگوں کا مال کھاتے تھے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے۔ آج کے مجاوروں کا بھی یہی حال ہے یہ بھی عوام الناس کا مال بے دریغ کھاتے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ ہورہا ہے کہ یہ لوگ صراطِ مستقیم سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ [2] (صحیح البخاری، ح:6696،وسنن ابی داود، الایمان و النذور، باب النذر فی المعصیۃ، ح:3289)