کتاب: نور توحید - صفحہ 59
الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟۔ قَالُوْا: لَا۔ قَالَ: فَھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِّنْ اَعْیَادِھِمْ؟۔ قَالُوْا: لَا۔فَقَالَ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:((اَوْفِ بِنَذرِکَ فَاِنَہٗ لَا وَفَآئَ لِنَذرٍ فِی مَعْصیَۃِ اللّٰهِ وَ لَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ اٰدَمَ۔))[1]
’’ایک آدمی نے بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، اس نے اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا: کیا وہاں دور جاہلیت کے کسی بت کی پوجا ہوتی تھی؟ صحابہ نے کہا:نہیں۔ آپ نے مزید پوچھا:
کیا وہاں مشرکین کا کوئی تہوار ہوتا تھا؟ صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنی نذر پوری کر لو۔ یادرکھو! جو نذر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے متعلق ہو یا انسان کے تصرف واختیار میں نہ ہو، اسے پورا کرنا ہر گز جائز نہیں۔‘‘
یہ حدیث امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے؛ اور امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی شرائط کے مطابق صحیح الاسناد ہے۔
اس باب کے مسائل
1۔ آیہ مبارکہ﴿لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا﴾کی تفسیر معلوم ہوئی۔
2۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی زمین پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور ایسے ہی اطاعت بھی۔
3۔ کوئی مشکل مسئلہ سمجھنے کے لیے اسے واضح مسئلہ کی طرف لوٹانا؛ تاکہ کسی قسم کا کوئی اشکال ختم ہوجائے۔
4۔ مفتی، سائل سے حسب ضرورت تفصیل طلب کر سکتا ہے۔
5۔ منت اور نذر کے لیے کسی خاص مقام کو مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔
6۔ جس مقام پر کوئی بت وغیرہ ہو وہاں نذر پوری کرنا منع ہے، خواہ اب اسے وہاں سے ختم کر دیا گیا ہو۔
7۔ جہاں مشرکین کا کوئی میلہ یا تہوار منایا جاتا ہو وہاں پر بھی نذر پوری نہیں کی جاسکتی خواہ اب وہ سلسلہ بند ہی ہو چکا ہو۔
8۔ مشرکین کے بت یا تہوار والی جگہ کی نذر مانی ہو تو اسے پورا کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ نذر نافرمانی کی نذر ہے۔
9۔ مشرکین کے تہواروں میں بھی ان کی مشابہت سے بچنا چاہئے اگر چہ ان کی مشابہت کا قصد و ارادہ نہ بھی ہو۔
10۔ جو نذر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مشتمل ہو، وہ باطل ہے۔
11۔ جو کا م انسان کی ملکیت اور اختیار میں نہ ہو، اس کی نذر ماننا بھی ناجائز اور غلط ہے۔
[1] (سنن ابی داود، الایمان، ح:3313 و السنن الکبری للبیھقی، ح:10 / 83)
یہ مقام تفصیل طلب تھا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تفصیل سے بیان فرمایا؛ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ بات ہوتی کہ وہاں جاہلیت کے کسی بت کی پوجا ہورہی ہے تو وہاں قربانی کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہوتی۔ یہاں حدیث بیان کرنے کا بھی یہی مقصد ہے۔
العِیدوہ جگہ جہاں لوگ باربار آئیں یا وہ گھڑی اور زمانہ جو بار بار لوٹ کر آئے۔ کسی جگہ کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہاں لوگوں کا بار بار آنا ہوتا ہے۔ اسی طرح زمانے بھی ایک معین وقت میں بار بار لوٹ کر آتے ہیں اس لیے انہیں بھی عید کہا جاتا ہے۔