کتاب: نور توحید - صفحہ 53
اور ان دونوں باتوں میں فرق بالکل ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ سے دعاکرنے میں ؛ جو کہ عین اخلاص اور توحید ہے؛ اور مخلوق کو پکارنے میں جو کہ شرک اور اللہ تعالیٰ کی برابری کرنا ہے۔ [1]
[1] کتاب و سنت کے دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے برکت سے نوازا ہے وہ یا تو کچھ مقامات یا اوقات ہیں یا افراد و شخصیات۔
پہلی قسم:مقامات یا اوقات۔
ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بعض جگہوں کو بابرکت بنایا ہے جیسے بیت اللہ شریف اور بیت المقدس کا آس پاس وغیرہ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان جگہوں میں بہت زیادہ خیر اور بھلائی ہے جو ہمیشہ ان کے ساتھ منسلک اور مربوط ہے اور یہ خیر و برکت ان میں اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ جن لوگوں کو ان کی زیارت کی دعوت دی گئی ہے ان میں یہ رغبت اور شوق پیدا ہو کہ وہ ہمیشہ اپنا تعلق اور دلی لگا ان کے ساتھ رکھیں۔
ان جگہوں کے بابرکت ہونے کا یہ مفہوم قطعا نہیں کہ وہاں کی سرزمین یا دیواروں کو چھوا جائے کیونکہ یہ برکت ان کے ساتھ اس طرح سے لازم ہے کہ کسی دوسری چیز میں منتقل نہیں ہو سکتی۔ یعنی زمین کو چھونے، وہاں دفن ہونے اور اسے متبرک سمجھنے سے اس کی برکت منتقل نہیں ہوجاتی۔
کسی جگہ کے بابرکت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کا دلی تعلق اس جگہ کے ساتھ ہو؛ جیسے بیت اللہ الحرام ہے کہ اس کا قصد و ارادہ کرنے والا، وہاں جاکر اس کا طواف کرنے والا اور عبادت بجالانے والا بہت ہی خیر کا مستحق ٹھہرتا ہے، حتی کہ حجراسود بھی ایک بابرکت پتھر ہے لیکن اس کی برکت بھی عبادت ہی کی بنا پر ہے۔یعنی جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت کرتے ہوئے بطور عبادت اسے چھوئے اور بوسہ دیگا وہ اتباع کی برکت بھی پالیگا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجراسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تھا:(أِنِی أعلم إنک حجر لا تنفع ولا تضر)(صحیح البخاری، الحج، ح1597 وسنن ابی داود، المناسک، باب فی تقبیل الحجر، ح:1873 واللفظ لہ)۔
’’ میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے، تو کوئی نفع دے سکتا ہے نہ کوئی نقصان‘‘
رہے اوقات:جیسے ، ماہ رمضان یا اس کے علاوہ فضیلت کے حامل دیگر ایام کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں عبادت بجالانا اور بھلائی کا قصد کرنا اجر و ثواب میں زیادتی کا باعث ہے، ان کے علاوہ دوسرے ایام میں اس قدر اجر و ثواب نہیں ملتا۔
دوسری قسم: جس برکت کا تعلق شخصیات کے ساتھ ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیا و رسل کی ذات میں برکت رکھی تھی یعنی ان کے اجسام بابرکت تھے کہ ان کا کوئی امتی اگر ان کے اجسام کو ہاتھ لگا کر یا ان کا پسینہ حاصل کر کے یا ان کے بالوں سے برکت حاصل کرنا چاہتا تو یہ اس کے لیے جائز ہوتا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے جسموں میں برکت رکھی تھی۔ اسی طرح سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر بھی بے حد مبارک تھا۔
احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کے پسینے ، بالوں اور دیگر اشیا سے برکت حاصل کیا کرتے تھے۔ انبیا ورسل کی برکت ذاتی ہوتی تھی۔ اس برکت اور فضل و خیر کا ان کے جسموں سے دوسروں تک منتقل ہونا ممکن تھا۔ اور یہ صرف انبیا کا خاصہ تھا۔
رہے انبیا کے علاوہ دوسرے لوگ تو انبیا کے امتیوں میں سے کسی کے بارے میں کوئی دلیل نہیں کہ اس کی ذات بھی بابرکت ہو، حتی کہ اس امت(محمدیہ علی صاحبھا الصلا و التسلیم) کی افضل ترین شخصیات، ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی تبرک لینے کی کوئی دلیل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین اور مخضرمین (وہ لوگ جو عہد نبوی میں اسلام قبول کر چکے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہیں ہوئی تھی)، ابو بکر وعمر وعثمان و علی رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس طرح تبرک نہیں لیا کرتے تھے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا وضو کے پانی سے تبرک لیتے تھے۔ ان بزرگ شخصیات کی برکت تو محض ان کے اعمال کی برکت ہوتی تھی نہ کہ ذات کی، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی برکت کی طرح ان کی برکت بھی دوسروں تک منتقل ہوسکے۔