کتاب: نور توحید - صفحہ 51
کے طریقوں پر چلوگے‘‘[1] اس باب کے مسائل: 1۔ سور النجم کی آیات کی تفسیر واضح ہوتی ہے۔ 2۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مطلوبہ صورت کی وضاحت؛[ذات انواط مقرر کرنے کے مطالبہ کی صحیح توجیہہ بھی معلوم ہوئی کہ وہ صرف تبرک کی خاطر ذات انواط مقرر کرانا چاہتے تھے ان کا مقصود اسے معبود بنانا نہ تھا]۔ 3۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنی اس خواہش کا محض اظہار ہی کیا تھا۔ اسے عملی جامہ نہیں پہنایا تھا۔ 4۔ اور اس سے ان کا مقصود قرب الٰہی کا حصول ہی تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے پسند فرماتا ہے۔ 5۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسی عظیم ہستیوں پر شرک کی یہ قسم مخفی رہی تو عام لوگوں کا اس سے ناواقف رہنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ 6۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے جو نیکیوں اور بخشش کے وعدے کیے گئے ہیں وہ دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتے۔ 7۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو معذور نہ جانا بلکہ آپ نے ان کی تردید کرتے ہوئے معاملے کی سنگینی ان تین جملوں میں بیان کی۔(اللّٰه اکبر! إِنہا السنن، لَتَرْ کَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَا نَ قَبْلَکُمْ)اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہی تو گمراہی کے راستے ہیں۔ تم پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔‘‘ان تین کلمات سے ان پر سخت انکار کیا۔ 8۔ سب سے اہم اور بڑی بات جو اصل مقصود ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہ فرمانا ہے کہ تمہارا مطالبہ اور فرمائش بھی بنی اسرائیل جیسی ہے۔ انہوں نے کہا تھا: ’’اے موسی!ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر جس طرح ان کے معبود ہیں۔‘‘ 9۔ اس قسم کے مقامات کو متبرک اور مقدس نہ سمجھنا بھی توحید اور کلمہ توحید کا تقاضاہے۔ یہ ایک انتہائی دقیق اور پوشیدہ بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر بھی یہ معاملہ مخفی رہ گیا تھا۔ 10۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتوی دیتے ہوئے قسم اٹھائی۔[تو معلوم ہوا کہ فتوی پر قسم اٹھانا جائز ہے]۔ 11۔ بیشک شرک شرک اکبربھی ہوتا ہے؛ اور شرک اصغر بھی۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام اس مطالبہ پر مرتد نہیں ہوئے۔ 12۔ حضرت ابو واقد رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔‘‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں دوسرے ایسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی تھے جن کو اس مسئلہ کا علم تھا[کہ ایسا کرنادرست نہیں]۔ 13۔ اظہار تعجب کے موقعہ پر اللہ اکبرکہنا جائز ہے۔ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ 14۔ [شرک و بدعت کے تمام] اسباب و ذرائع کا سدباب کرنا ضروری ہے۔
[1] مشرکین اُس درخت کی عظمت و جلالت کے پیشِ نظر اسکے پاس بیٹھنا باعث بر کت سمجھتے تھے۔ یعنی برکت حاصل کرنے کی نیّت سے اس درخت پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ اس لیے کہا کہ ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی کہ شائدیہ بھی عند اللہ پسندیدہ عمل ہے لہٰذا ہم بھی تبرّک حاصل کیا کریں۔ اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ یہ شرک ہے تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی کیسے جرات کر سکتے تھے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِس بات کو بنی اِسرائیل کے قول سے مشابہ قرار دیا ہے کیونکہ دونوں نے الہٰ طلب کیا تھا جس کی وہ اللہ تعا لیٰ کے سوا عبادت کریں۔ دونوں کے مطالبہ کے الفاظ اگرچہ مختلف ہیں تاہم معنیٰ ایک ہی ہیں کیونکہ الفاظ کی تبدیلی سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو جاتی۔