کتاب: نور توحید - صفحہ 47
اس حدیث میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔التمائِم اورالرقی التِولۃ التمائِم: سے مراد ہر وہ چیز ہے جو بچوں کو نظربد سے بچانے کے لیے ان کے گلے میں یا جسم کے کسی اور حصے پر لٹکائی یا باندھی جاتی ہے(یہ شرک ہے)۔لیکن جب وہ چیز قرآنی آیات پر مشتمل ہو(یعنی قرآنی تعویذ ہو) تو بعض صحابہ کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے اور بعض نے ناجائزکہا ہے؛ اور ایسا کرنے کو بھی منع کردہ امور میں سے شمار کیا ہے۔ انہی(ناجائز قرار دینے والوں) میں سے ایک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ الرقی: سے مراد وہ اعمال ہیں جنہیں منتر،جھاڑ پھونک اور دم کہا جاتا ہے(یہ بھی شرک ہے)۔لیکن شرعی دلیل نے وضاحت کردی کہ جس دم میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں وہ جائز ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظربد اور زہریلے جانور کے ڈسنے پر دم کی رخصت اور اجازت عطا فرمائی ہے۔ التِولۃ: سے مراد وہ چیز ہے جسے مشرکین ان نظریے اور اعتقاد سے بناتے اور تیار کرتے تھے کہ یہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور سبب ہے۔حضرت عبد اللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَعَلَّقَ شَیْئًا وُکِلَ اِلَیْہِ۔))[1] ’’جوشخص کوئی چیز لٹکائے تو اسی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔‘‘ حضرت رویفع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ((یَا رُوَیْفِعُ! لَعَلَّ الْحَیٰاۃَ سَتَطُوْلُ بِکَ فَاَخْبِرِ النَّاسَ اَنَّ مَنْ عَقَدَ لِحْیَتَہٗ اَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا أَوِسْتَنْجٰی بِرَجِیْعِ دَآبَۃٍ اَوْ عَظْمٍ فَاِنَّ مُحَمَّدًا بَرِیئٌ مِنْہُ۔))[2] ’’اے رویفع! شاید تم دیر تک زندہ رہو۔ تم لوگوں کو بتادینا کہ جس شخص نے ڈاڑھی کو گرہ لگائی یا(جانور کے)گلے میں تانت ڈالی یا جانور کے گوبریا ہڈی کے ساتھ استنجا کیا تو لاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری اور بے زار ہے۔‘‘ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں:((مَنْ قَطَعَ تَمِیْمَۃً مِّنْ اِنْسَا ٍن کَانَ کَعَدْلِ رَقَبَۃٍ۔)) [3] ’’جس شخص نے کسی انسان سے تعویذکاٹ پھینکا، اسے ایک گردن(غلام) آزاد کرنے کے برابر ثواب ہوگا۔‘‘ حضرت ابراھیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے ؛[سلف صالحین[ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں]کے متعلق فرماتے ہیں]: ((کَانُوْا یَکْرَھُوْنَ التَّمَآ ئِمَ کُلَّھَا مِنَ الْقُراٰنِ وَ غَیْرِ الْقُرْاٰنِ)) [4] ’’وہ قرآنی اور غیر قرآنی ہر قسم کے تمائم(تعویذات)کو نا پسند سمجھتے تھے۔‘‘ اس باب کے مسائل:
[1] (مسند احمد:4 / 310، و جامع الترمذی، الطب، باب ما جا فی کراہی التعلیق، ح:2072) [2] (مسند احمد:4 / 108،109 و سنن ابی داود،الطہار، باب ما ینہی عنہ ان یستنجی بہ ح:36) [3] (المصنف لابن بی شیبۃ:ح:3524) [4] (المصنف لابن بی شیبۃ، ح:3518)