کتاب: نور توحید - صفحہ 46
باب: ماجاء فی الرقٰی والتمائم
باب: دم تعویذ اور گنڈوں کے بارے میں [1]
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛ آپ فرماتے ہیں:
((اَنَہٗ کَا نَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِیْ بَعْضِ اَسْفَارِہٖ فَاَرْسَلَ رَسُوْ لًا اَنْ لَّا یَبْقَیَنَّ فِیْ رَقَبَۃِ بَعِیْرٍ قِلَادَۃٌ مِّنْ وَتَرٍ اَوْ قِلَادَۃٌ اِلَّا قُطِعَتْ۔))[2]
’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں تھے کہ آپ نے ایک قاصد کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار یا کوئی اور ہار نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔‘‘
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((اِنَّ الرُّقٰی وَ التَّمَآئِمَ وَ التِّوَلَۃَ شِرْکٌ۔))[3]
’’بلا شبہ جھاڑ پھونک(دم) تعویذ گنڈے اور عشق و محبت منتر شرک ہیں۔‘‘
[1] اس باب میں دم کرنے اور کروانے کا حکم بیان ہوا ہے۔ اذکار، دعائیں اور بابرکت الفاظ پڑھ کر پھونک مارنے دم کہتے ہیں۔ان میں سے بعض کا اعضائے بدن پر اور بعض کا روحانی طور پر اثر ہوتاہے۔ بعض ان میں سے شرعا جائز ہیں اور بعض ناجائز ، حرام بلکہ شرک ہیں۔ جن دموں میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں ،شارع علیہ السلام نے ان کی اجازت دی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( لابأس بِالرقی ما لم یکن شِرکاً))۔‘‘دم میں اگر شرکیہ کلمات نہ ہوں تو وہ جائز ہیں ، ان میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
شرکیہ دم: وہ ہیں جن میں غیر اللہ سے مدد مانگی جائے یا ان میں شیاطین کے نام آتے ہوں یا دم کرانے والا یہ عقیدہ رکھے کہ یہ کلمات ازخود مؤثر یا نفع بخش ہیں۔ ایسی صورت ہو تو یہ دم ناجائز اور شرکیہ ہو گا۔اور تمیمہ یعنی تعویذات[گنڈے] سے مراد، چمڑے کے ٹکڑے ، منکے، لکھے ہوئے بعض الفاظ و کلمات یا مختلف شکلوں کی چیزیں مثلاً ریچھ یا ہرن کا سر، خچر کی گردن ، سیاہ کپڑا، آنکھ کی شکل کی کوئی چیز یا منکوں کی مالا وغیرہ کوئی بھی چیز باندھنا اور لٹکانا ہے۔ یہ تمام اشیاء تمیمہ یعنی تعویذ کہلاتی ہیں۔ الغرض ہر وہ چیز جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ یہ خیر اور بھلائی کا سبب اور نقصان سے تحفظ اور اس کے دفعیہ کا باعث ہے، اسے تمیمہ کہا جاتا ہے۔ اس چیز کی شرعاً اور تقدیراً بالکل اجازت نہیں دی گئی۔
علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ دم اور رُقیہ جس میں مندرجہ ذیل تین شرائط پائی جائیں ، جائز ہے: ۱۔ وہ دَم جو کلام اللہ، اسماء اللہ یا اس کی صفات پر مبنی ہو۔۲۔ وہ دم جو عربی زبان میں ہو، اس کے معنی بھی واضح اور مشہور ہوں اورمطابق شریعت اسلامی ہو۔۳۔ یہ کہ دم کرنے والا اور کروانے والا یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ دم فی نفسہٖ کوئی بااثر چیز نہیں ہے بلکہ سارا معاملہ اللہ کی تقدیر سے وابستہ ہے اور اگر اللہ تعا لیٰ نے چاہا تو اثر ہو گا۔
[2] (صحیح البخاری، الجہاد، باب ما قیل فی الجرس ونحوہ فی اعناق الابل، ح:3005 و صحیح مسلم، اللباس، باب کراہ قلاد الوتر فی رقبۃ البعیر،ح:2115)۔
[3] (مسند احمد:1 / 381 و سنن ابی داود، الطب، باب تعلیق التمائم، ح:3883)