کتاب: نور توحید - صفحہ 45
جب یہ معلوم ہوگیا کہ کڑا پہننا یا دھاگا باندھنا ؛ یا اس طرح کی دیگر کوئی حرکت کرنا ؛ جس سے مقصود مصیبت آنے کے بعد اس کو ختم کرنا ہو؛ یا مصیبت کے آنے سے پہلے اس سے بچاؤ کی تدبیر کرنا ہو؛ تو یہ کام یقیناً شرک کا کام ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ حرکت کرنے والا انسان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ایسا کرنے سے تکلیف / پریشانی دور ہو جائے گی ؛ تو یہ عقیدہ رکھنا شرک اکبر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت میں شرک ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر و تخلیق میں دوسروں کو شریک ٹھہراتا ہے۔
اور ایسے ہی یہ عبودیت میں بھی شرک ہے۔ اس طرح سے کہ یہ کام کرنے والے کا دل اس چیز کے ساتھ لگاہوا ہے؛ اسی لیے اس کے دل میں ان چیزوں سے فائدہ کے حصول کی طمع اور امید پائی جاتی ہے۔ اگرچہ اس کا عقیدہ یہی ہے کہ نفع دینے والی اورپریشانی ختم کرنی والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے بلاء کے خاتمہ کے لیے ایسی چیز کے سبب ہونے کا اعتقاد رکھا ہے جس کا سبب ہونا شریعت میں یا عرف میں تقدیری طور پر ثابت نہیں۔ پس ایسا کرنا حرام اور شریعت اور تقدیر پر جھوٹ ہے۔
جہاں تک شریعت کا تعلق ہے؛ تو شریعت میں اس کی بہت سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ پس جس چیز سے شریعت منع کر رہی ہو؛ وہ کبھی بھی نفع بخش سبب نہیں بن سکتی۔
اور جہاں تک تقدیر کا تعلق ہے؛ تو ایسا کرنا ان اسباب معہودہ یا غیر معہودہ میں سے نہیں ہے جن سے مقصود حاصل ہوتا ہو۔ اور نہ ہی یہ ان نفع بخش ادویہ میں سے ہے جن کا استعمال کرنا مباح ہے۔ مزیدبرآں ایسا کرنا جملہ طور پر شرک کے وسائل میں سے ہے ؛ اس لیے کہ دل کا اس کے متعلقات سے معلق ہونا ضروری ہے۔ تو ایسا کرنا بھی ایک قسم کا شرک اور اس کا وسیلہ ہے۔
پس جب یہ امور ان شرعی اسباب میں سے نہیں ہیں جنہیں شریعت مطہرہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جائز اورمشروع ٹھہرایا ہے؛ جن سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی اورثواب حاصل ہوسکتے ہیں۔ اور نہ ہی ان قدری[تقدیری]اسباب میں سے ہے جو علم یا تجربہ کی روشنی میں معلوم ہوتے ہیں ؛ جیسے مباح دوائیں وغیرہ۔ اور جس انسان کا دل ان چیزوں سے لگا ہوتا ہے؛ اس کے دل میں ان چیزوں سے فائدہ حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے۔ پس مؤمن پر لازم آتا ہے کہ ایسی تمام باتیں ترک کردے تاکہ اس کا ایمان اور توحید کامل ہو۔ بلاشک و شبہ جب دل میں توحید کامل ہوجائے تو وہ ایسی چیزوں سے نہ لگا رہے جو توحید کے منافی ہوں۔ نیز یہ امر عقل میں نقص یعنی کمی کی دلیل بھی ہے؛ کہ یہ آدمی ایسی چیز کے پیچھے پڑا ہوا ہے جس سے کسی طرح بھی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا؛ بلکہ الٹا اس کا محض نقصان ہی نقصان ہے۔
شریعت کی بنیاد اس بات پر ہے مخلوق سے دلی تعلق ترک کرکے؛ اوربت پرستی کو خیر آباد کہہ کر مخلوق کے لیے دین کی تکمیل کی جائے۔ پس جس قدر لوگوں کی عقل کامل ہوگی؛ وہ ان خرافات اور ڈھکوسلوں سے دور رہیں۔اور سنجیدگی سے ان نفع بخش امور کی طرف آئیں گے جن سے عقل میں ترقی نصیب ہوتی ہو اور نفوس کا تزکیہ ہوتاہو۔ اور جن میں دینی اور دنیاوی مصلحتوں کی رعایت ہو۔ واللہ اعلم۔