کتاب: نور توحید - صفحہ 44
10۔ نظربد سے بچاؤکے لیے سیپی باندھنا بھی شرک ہے۔
11۔ (بیماریوں سے تحفظ کے لیے)تمیمہ(تعویذ، منکا وغیرہ)لٹکانے والے اور سیپی وغیرہ باندھنے والے کے لیے بد دعاکرنا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے دھاگا وغیرہ لٹکایا‘ اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے اور اسے آرام نہ دے۔‘‘[یعنی اللہ تعالیٰ اسے یونہی چھوڑ دے۔]
اس باب کی شرح:
اس باب کی فہم و سمجھ اسباب کے احکام کی فہم و دانست پر موقوف ہے۔ [1]
اس کی تفصیل یہ ہے کہ: ’’ انسان پر واجب ہوتا ہے کہ اسباب کے تعلق سے تین باتوں کو اچھی طرح سے جان لے:
اول: سبب صرف اسی چیز کو مانا جائے گاجس کا صحیح معنوں میں مؤثر سبب ہونا شریعت اور تقدیر سے ثابت ہو۔
دوم: انسان کو صرف سبب پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ اس کے مسبب الاسباب ؛ اور مقدر کرنے والی ہستی پر اعتماد کرے؛ حالانکہ بعض اسباب نہ صرف مشروع ہیں بلکہ ان میں سے نفع بخش اسباب اختیار کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔
سوم: یہ بات بھی اچھی طرح سے جان لینی چاہیے کہ اسباب جتنے ہی بڑے اور مضبوط ہوں ؛ پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے مربوط ہوتے ہیں۔ جن سے باہر نہیں جایا جاسکتا۔ اور اللہ تعالیٰ جیسے چاہیں ان میں تصرف کرتے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں تو اپنی حکمت کے تحت اس کے سبب بننے کو ایسے جاری و ساری رہنے دیتے ہیں۔ تاکہ بندے ان اسباب کو اختیار کریں ؛ اور اس طرح سے وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کو جان سکیں کہ اس نے مسببات کو اسباب کے ساتھ؛ اورمعلول کو علت کے ساتھ منسلک رکھاہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو اپنی مرضی و حکمت کے مطابق اس میں تبدیلی کردیتے ہیں۔ تاکہ لوگ اسی پر کلی طور پر اعتماد نہ کرلیں۔
اور اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کا اندازہ لگالیں ؛ کہ مطلق طور پر تصرف اور قدرت صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہے۔ پس یہ چیز ہر انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی نظر اور عمل میں تمام اسباب کو جمع کردے۔
[1] اس باب کے عنوان سے واضح ہوا کہ چھلے پہننے اور دھاگے باندھنے کے علاوہ منکے، تعویذات، لوہا، چاندی وغیرہ اور دیگر مختلف اشیا جو گلے میں باندھی یا لٹکائی جاتی ہیں یا گھروں میں ، گاڑیوں پر چھوٹے بچوں کے گلے میں کسی مخصوص مقصد، نظریہ یا عقیدہ کے تحت پہنی ، باندھی یا لٹکائی جاتی ہیں ، یہ سب شرک ہے۔چھلے اور دھاگے اور اسی طرح تعویذات وغیرہ کی بابت عربوں کا عقیدہ تھا کہ یہ اشیا آئی ہوئی مصیبت کو رفع کردیتی ہیں یا آنے والی مصیبت کو روک دیتی ہیں۔ ایسی حقیر اشیا کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو روک سکتی ہیں ، یہ شرک اصغر کیسے ہو سکتا ہے؟ (بلکہ یہ تو شرک اکبر ہے۔)کیونکہ ایسا کرنے والے کے دل میں ان اشیا کی محبت موجود ہوتی ہے اور وہ ان اشیاء کو مصائب روکنے اور ان سے بچانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ یہی شرک ہے۔ اصل اصول یہ ہے کہ صرف انہی اشیاء اور اسباب کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا جائز ہے جن کی شریعت نے اجازت دی ہے یا تجربہ سے ثابت ہو کہ یہ اسباب واقعی ظاہری طور پر ثمر بار ہیں۔ مثلا طبیب کا دوا دینا، یا جیسے وہ اسباب ، جن سے نفع حاصل ہوتا ہے جیسے آگ سے حرارت اور پانی سے ٹھنڈک کا حاصل ہونا وغیرہ۔ یہ ایسے اسباب ہیں جن کی تاثیر ظاہر اور واضح ہے۔
شرک اصغر کی جملہ اقسام بعض اوقات نیتوں کی بنیاد پر شرک اکبر بن جاتی ہیں۔ مثلا کوئی شخص چھلے اور دھاگے وغیرہ کو سبب سمجھنے کی بجائے یہ عقیدہ رکھے کہ یہ بذات خود نفع بخش ہے تو اس کا یہ عمل شرک اکبر ہوگا کیونکہ اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اس کا ئنات میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بھی کوئی چیز تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ گویا اس مسئلے کا اصل تعلق دل کے ساتھ ہے۔