کتاب: نور توحید - صفحہ 43
[1] ابن ابی حاتم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے:
(اَنَّہٗ رَاٰی رَجُلًا فِیْ یَدِہٖ خَیْطٌ مِنَ الْحُمّٰی فَقَطَعَہٗ)[2]
’’آپ نے ایک شخص کے ہاتھ میں بخار سے تحفظ کے لیے دھاگا بندھا ہوا دیکھا تو انہوں نے اسے کاٹ ڈالا؛ اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾[یوسف106] ’’اور ان میں سے اکثرلوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہیں۔‘‘
اس باب کے مسائل:
1۔ (بیماری سے تحفظ کی نیت سے)چھلا پہننا اوردھاگہ وغیرہ باندھنے کی سخت ممانعت۔
2۔ اگر صحابی بھی اس نیت سے کوئی چیز پہنے، باندھے یا لٹکائے اور اسی حال میں مرجائے تو وہ بھی کبھی فلاح نہیں پا سکتا۔ حدیث میں صحابہ کی اس ٹھوس بات کے لیے شاہد بھی موجود ہے کہ شرک اصغر، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
3۔ جہالت کے سبب بھی ان اعمال کے مرتکب کو معذور نہیں سمجھا جائے گا۔
4۔ یہ چیزیں دنیا میں بھی مفید نہیں ؛بلکہ مضر ہیں ؛ جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ تیری بیماری کو مزید بڑھائے گا۔‘‘
5۔ ایسی چیزیں استعمال کرنے والے کو سختی سے روکنا چاہئے۔
6۔ یہ واضح رہے کہ جو شخص، کوئی چیز باندھے یا لٹکائے تو اسے اسی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔
7۔ یہ بھی واضح ہے کہ جس نے تمیمہ(تعویذ، منکا وغیرہ)لٹکایا ؛ اس نے شرک کیا۔
8۔ بخار کی وجہ سے دھاگہ وغیرہ باندھنا بھی شرک ہے۔
9۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر سورۃ یوسف کی آیت تلاوت کرنایہ دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین شرک اکبر کی آیات شرک اصغر کی تردید میں پیش کیا کرتے تھے جیسا کہ سورۃ بقرہ کی آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے۔
[1] (من تعلق تمِیم فلا تم اللہ لہ)جس نے تمیمہ لٹکایا اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے۔ تعلق کا معنی جہاں لٹکانے کا ہے وہاں اس کا معنی دلی لگا ؤاور میلان کا بھی ہے۔ گویا کوئی چیز(بیماری سے تحفظ کے لیے)لٹکانے والے کا دلی لگاؤ اور میلان اس کی طرف ہوتا ہے۔
تمِیمہ.:نظربد سے تحفظ، نقصان سے بچاؤ اور کسی کے حسد سے حفاظت کی خاطر، منکے یا کوئی دوسری چیز جو گلے میں پہنی اور سینے پر لٹکائی جائے اسے تمِیمہ کہا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے۔ تمِیمہ کو تمیمہ کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کے بارے میں انسان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ میرا کام یہی (منکے وغیرہ)مکمل اور تمام کریں گے۔ تو آپ نے اسی بد اعتقادی کی بنا پر بد دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کا کام مکمل اور پورا ہی نہ کرے۔
ومن تعلق ودع فلا ودع اللہ لہ (اور جس نے سیپ (گلے میں ) لٹکائی اللہ تعالیٰ اسے آرام اور سکون نہ دے) ودع سیپیوں یا منکوں کی ایک قسم ہے جسے لوگ (گلے میں پہن کر)سینے پر رکھتے ہیں یا پھر نظربد سے بچنے کے لیے بازو پر باندھتے ہیں۔ ایسا کرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو آرام و سکون اور راحت میں نہ رہنے دے۔ کیونکہ اس نے اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کیا۔
[2] [ تفسیر ابن ابی حاتم:7 / 120]