کتاب: نور توحید - صفحہ 41
………………………………………بقیہ حاشیہ ……………………………………… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گویا اس منصب کی تیاری کے مترادف تھا۔ غرض یہ تھی کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ پہلے سے قلب و ذہن کو اس ذمہ داری کے لئے پوری طرح آمادہ اور تیا ر کرلیں۔ لَا اِلٰہ اِ لَّا اللّٰه کے اقرار و شہادت کے لئے سات شرائط کا پایا جانا لازمی ہے کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والوں میں جب تک یہ شرائط نہ ہوں گی اس وقت تک اس کے فوائد ِ برکات کا حصول ممکن نہیں ہے: ۱۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والا ایسے علم سے بہرہ مند ہو جو جہالت کی ضد ہے۔ ۲۔ ایسے یقین سے آراستہ ہو جو شک سے پاک ہو۔ ۳۔ ایسی پذیرائی سے مالا مال ہو جس میں تردید کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ ۴۔ ایسی اطاعت اس کو نصیب ہو جس میں شرک کا امکا ن نہ ہو۔ ۵۔ ایسے اخلاص پر فائز ہو جس میں شرک کا کوئی پہلو نہ پایا جائے۔ ۶۔ صدقِ مقال کا وہ مقام حاصل ہو کہ جس میں کِذب نہ ہو۔ ۷۔ توحید سے ایسی محبت رکھے جس میں شرک کی مخالفت پائی جائے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’شریعت اسلامی کے مطالعہ سے بالبداہت یہ ثابت ہے، نیز ائمہ اسلام کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اسلام کی رُوح یا سب سے پہلے انسان جس چیز کا مکلف اور مامور ہے وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰه وَ اَنَّ مُحَمَدًا رَّسُوْلُ اللّٰه کا اقرار ہے۔ یہی کلمہ وہ حدِ فاصل ہے جس کے اقرار کے بعد ایک کافر، مسلمان کہلاتا ہے اور دشمن دوست بن جاتا ہے۔ یہی وہ کلمہ ہے جس کے اقرار سے پہلے انسان کی جان اور اس کا مال مسلمانوں کے لئے جائز اور مباح تھے، اور اس کے اقرار کے بعد اس کی جان اور مال مسلمانوں پر حرام قرار پائے۔ کوئی شخص اگر کلمہ شہادت کا صدقِ دل سے اقرار کرے گا تو ایمان اس کے قلب میں داخل ہو جائے گا اور اسے مومن کہا جائے گا اور اگر کسی شخص نے صرف زبان سے اقرار کیا اور دل میں اس پر یقین نہ کیا تو ایسے شخص کو بظاہر مسلمان ہی کہا جائے گا لیکن حقیقت میں وہ مومن نہ ہو گا۔ البتہ جو شخص قدرت اور طاقت کے ہوتے ہوئے اس کلمہ شہادت کا اقرار نہ کرے، ایسا شخص بالاتفاق کافر ہے۔ اس پر سلف صالحین، ائمہ کرام اور جمہور محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘ اس فرمان نبوی سے یہ بھی پتہ چلا کہ کلمہ شہادت کے اقرار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت مان لینے کے بعد ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑا اور اہم ترین کام نماز کا ادا کرنا ہے۔جو کہ شہادتین کے اقرار کے بعد نماز سب سے بڑا فریضہ ہے۔ اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے بعد زکوٰۃ کا درجہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ، امراء سے لے کر فقراء میں تقسیم کر دینی چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراء کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ آٹھ مصارفِ زکوٰۃ میں ان کا حق مقدم اور موکد ہے بنسبت دوسرے مصارف کے۔ ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ امام وقت ہی زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے، یا تو وہ خود وصول کرے یا اپنے کسی نائب کے ذریعے سے وصول کرے، جو شخص زکوٰۃ دینے سے انکار کرے اس سے زبردستی اور سختی سے وصول کی جاسکتی ہے۔ مختلف اشیاء کو جمع کرکے ان کی زکوٰۃ اگر ایک ہی چیز سے نکال دی جائے تو ادا ہوجائیگی۔ غنی اور غیر مولفۃ القلوب کافر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے مجنون اور بچے کے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مظلوم کی دعا کو روک دینے کے لئے ترک ظلم اور ادائے عدل کو سپر بنانا چاہیے۔ کیونکہ عدل و انصاف اور ترک ظلم، یہ دو اعمال ایسے ہیں جن کے ذریعہ سے انسان دنیا اور آخرت کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔