کتاب: نور توحید - صفحہ 40
کی عبادت سے برأت کا اظہار کیا جائے۔ اور یہ کہ ایسے محبوب بنانا جن سے ایسے محبت کی جائے جیسے اللہ تعالیٰ سے محبت کی جاتی ہے؛ یا پھر ان کی اس طرح سے اطاعت کرنا جیسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے؛یا اس کے لیے ایسے اعمال سر انجام دینا جیسے اعمال اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے بجا لائے جاتے ہیں ؛ یہ سارے کام لا إلہ إلا اللّٰه کی تفسیر اور معانی کے بہت سخت منافی ہیں۔ اور مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ: لا إلہ إلا اللہ کی سب سے اہم اور بڑی تفسیررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہے: ((اَنَّہٗ قَالَ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللّٰهُ وَ کَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَرُمَ مَالُہٗ وَ دَمُہٗ وَ حِسَابُہٗ عَلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَل۔)) [1] ’’جس نے’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللّٰه‘‘کا اقرار کیا؛ اور اللہ تعالیٰ کے سوا جس چیز کی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار کیا؛ تواس کی جان اور مال محفوظ ہو گیا، اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔‘‘ پس اس حدیث میں صرف ان الفاظ کی ادائیگی پر جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری نہیں اٹھائی۔ اور نہ ہی اس کے الفاظ و معانی کی معرفت اور ان کے اقرار پر اس ذمہ داری کو موقوف کیا ہے۔ یہی نہیں ؛ بلکہ صرف اس بات کو بھی کافی نہیں سمجھا گیا کہ کوئی انسان اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتا۔ بلکہ حقیقت میں کسی کا مال اور خون اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتے جب تک وہ غیراللہ کی عبادت کا انکار نہ کرے۔ اگر اس میں کوئی توقف اختیار کرے؛ یا پھر شک و شبہ میں پڑ جائے تو اس کا مال اور خون حرام نہیں ہوگا۔ پس اس سے واضح ہوا کہ: یہ عقیدہ رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت بجا لانا واجب ہے۔ اور پھر اس عقیدہ کا اظہار زبان سے بھی کرے؛ اور ان تمام چیزوں سے برأت کا اظہار کرے جو قولاً یا فعلاً اس عقیدہ کے خلاف ہوں۔ اور ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان لوگوں کی محبت دل میں پیدا نہ ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کئے ہوئے ہیں۔اور ان کی نصرت و مدد کی جائے۔ اہل کفر و شرک سے بغض اور دشمنی نہ رکھی جائے۔ اس موقع پر محض الفاظ کسی بھی چیز سے بے نیاز نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی حقیقت کے مقابلہ میں خالی خولی دعوے کام آسکتے ہیں۔ بلکہ علم اور عقیدہ اور قول و عمل میں مطابقت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بلاشک و شبہ یہ تمام اشیاء آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جب بھی ان میں سے ایک چیز پیچھے چھوڑ دی جائے تو باقی اشیاء بھی پیچھے رہ جاتی ہیں[یعنی ان میں کمی آجاتی ہے]۔
[1] اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان اور مال کی حفاظت کو دو باتوں کے ساتھ معلق اور مشروط فرمایا ہے: ۱۔پہلی بات یہ ہے کہ انسان ’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اﷲ‘‘کی علم اور یقین کامل سے شہادت دے۔ ۲۔دوسری بات یہ کہ انسان ہر اس شخص اور ذات سے بیزاری اختیار کرے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت ہورہی ہو۔ اس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف الفاظ تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے ساتھ قول اور عمل دونوں کا ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ ’’جب تک (لوگ) شریعت ِ اسلامیہ کے ظاہری احکام پر عمل نہ کریں اس وقت تک ان سے جنگ جاری رکھی جائے گی۔ اگر چہ وہ ’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اﷲ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲ‘‘ کا اقرار کرتے ہوں اور بعض احکام شریعت پر عامل ہوں جیسا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان لوگوں سے جنگ کا اعلان فرمایا تھا جنہوں نے صرف زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ تمام فقہائے اُمت کا اس پر اتفاق ہے۔‘‘ شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ ’’جو جماعت یا گروہ چند نمازیں ادا کرے اور چند چھوڑ دے یا روزے نہ رکھے یا حج نہ کرے یا جس شخص کا خون حرام ہے اس کی پرواہ نہ کرے یا لوگوں کا مال لوٹتا پھرے یا شراب کا عادی ہو، یا جوا کھیلتا ہو یا محرم عورت سے نکاح کرے یا جہاد ترک کردے یا اس کے علاوہ واجبات ِ دین میں سے امرِ واجب کو بلا عذر شرعی ترک کردے، جس کے ترک پر کفر لازم آتا ہو، ایسے گروہ سے جنگ کرنا ضروری ہے اگرچہ وہ گروہ مندرجہ بالا احکام کا زبانی طور پر اقرار بھی کرتاہے۔‘‘[جاری ہے: ]