کتاب: نور توحید - صفحہ 38
((مَنْ قَالَ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللّٰهُ وَ کَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَرُمَ مَالُہٗ وَ دَمُہٗ وَ حِسَابُہٗ عَلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَل۔))[ح:23]
’’جس نے’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللّٰه‘‘کا اقرار کیا؛ اور اللہ تعالیٰ کے سوا جس چیز کی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار کیا؛ تواس کی جان اور مال محفوظ ہو گیا، اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔‘‘
آئندہ آنے والے ابواب میں اسی عنوان لا اِلہ اِلا اللہ کی شہادت کا مطلب؛ شرح اور وضاحت پیش کریں گے۔
اس باب کے مسائل:
1۔ اس میں سب سے اہم مسئلہ توحید اور کلمہ لا اِلہ اِلا اللہ کی گواہی دینے کی تفسیر ہے جسے متعدد آیات و احادیث سے واضح کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک:
2۔ سورت الاسراء کی آیت 57ہے جس میں ان مشرکین کی تردید ہے جو صالحین اور بزرگان کو پکارتے ہیں، اس آیت میں صاف صاف بیان ہے کہ ایسا کرنا شرک اکبر ہے۔
3۔ اس باب میں سورت التوبہ کی آیت 31 بھی ہے؛ جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ:’’ اہل کتاب نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ اپنے علما اور بزرگوں کو بھی رب بنا رکھا تھا‘‘حالانکہ انہیں صرف اورصرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ اور اس آیت کی وہ تفسیر جس میں کوئی اشکال یا ابہام نہیں، یہ ہے کہ اہل کتاب اپنے علما اور بزرگوں کو مصیبت یا مشکل کے وقت پکارتے ہی نہیں تھے بلکہ معصیت کے کاموں میں ان کی اطاعت کرتے تھے۔(اور اسی کو معبود اور رب بنانا کہاگیا ہے)۔
4۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کا بھی تذکرہ ہے جو انہوں نے کفار سے کہی تھی:
﴿اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ& اِلَّا الَّذیْ فَطَرَنِی﴾(الزخرف:۲۶ -۲۷)۔
’’ جن کو تم پوجتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ؛ہاں جس نے مجھے پیدا کیا۔‘‘
یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کفار کے معبودان باطلہ سے اپنے حقیقی رب کو مستثنی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ کفار سے اس طرح کی برات و بے زاری اور اللہ تعالیٰ کی موالات و محبت کا اظہار ہی کلمہ لا اِلہ اِلا اللہ کی گواہی دینا ہے۔چنانچہ فرمایا:
﴿وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ﴾(الزخرف:۲۶ تا ۲۸)۔
’’ اور یہ کلام اپنے پیچھے اپنی قوم میں چھوڑ گئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔‘‘
5 ۔ نیز ایک دلیل، سورہ بقرہ کی وہ آیت بھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے متعلق فرمایا ہے:
﴿وَمَا ہُم بِخَارِجِینَ مِنَ النَارِ﴾[البقرۃ167:]
’’وہ جہنم سے نکالے جانے والے نہیں ہیں۔‘‘
اور ان کے متعلق فرمایا کہ وہ اپنے خود ساختہ معبودوں،اور اللہ کے شریکوں سے یوں محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہئے۔ نیز واضح فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بھی شدید محبت رکھتے ہیں لیکن ان کی یہ محبت انہیں اسلام میں داخل نہیں کرسکی۔