کتاب: نور توحید - صفحہ 29
باب:الخوف من الشرک باب: شرک سے خوف کا بیان [اس باب میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ شرک سے ڈرنا اوربچنا ضرور ی ہے] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآ ئُ﴾۔(النساء ۴۸) ’’ اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا، اس سے کم جس قدر گناہ ہیں، وہ جس کے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے۔‘‘ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ﴿وَاجْنُبْنِیَ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ ا لْاَصْنَامْ﴾[ابراہیم ۳۵] ’’اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔‘‘ حدیث شریف میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرکُ الْاَصْغَرُ۔))[1] ’’مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے۔‘‘ پوچھا گیا کہ شرک اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: دکھلاوا(ریاکاری)‘‘ [2] حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] (مسند احمد:5 / 428و مجمع الزوائد:1 / 102 و معجم الکبیر للطبرانی، ح: 4301 ) [2] [مسند احمد ۵/۴۲۹]ریاکاری، غیر اللہ کی قسم اٹھانا،گلے میں تعویذ ڈالنا، چھلے پہننا، دھاگے باندھنا یا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا یہ تمام امور شرک ہونے کی بنا پر ناقابل معافی ہیں۔پس ان تمام کاموں سے اور بالخصوص شرک اکبر سے ڈرکر اور بچ کر رہنا چاہئے۔ چونکہ شرک انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے؛اس لیے چاہئے کہ شرک کی تمام انواع و اقسام سے خوب واقفیت ہو تاکہ شرک میں ملوث ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ خوف اور ڈر ، ریاکاری سے کیوں تھا؟ اس کے برے اثرات اور نتائج کی بنا پر یہ ناقابل معافی گناہ ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے اکثر لوگ غافل رہتے ہیں۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے متعلق اس گناہ کا زیادہ اندیشہ تھا۔ریا کی دو اقسام ہیں۔ (الف) ایک تو منافق کی ریاکاری اور دکھلاوا ہے جس کا تعلق اصل دین کے ساتھ ہے یعنی وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اسلام کا اظہار کرتا ہے جبکہ باطن میں کفر چھپائے ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:[یہ (منافقین)لوگوں کے لیے دکھلاوا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ][النساء142] (ب) دوسری ، مسلمان موحد کی ریا ہے۔ جیسے کوئی لوگوں کو دکھانے یا شہرت حاصل کرنے کے لیے خوب بنا سنوار کر نماز ادا کرے اور یہ شرک اصغر ہے۔