کتاب: نور توحید - صفحہ 26
فال لیتے ہیں اور وہ اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔‘‘حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیے:’’ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں سے کردے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تو ان میں سے ہی ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک دوسرے صحابی نے عرض کیا:’’ میرے لئے بھی دعا فرمائیے کہ:’’ اللہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم سے عکاشہ رضی اللہ عنہ بازی لے گیا‘‘[1] اس باب کے مسائل 1۔ توحید کے بارے میں لوگوں کے درجات و مراتب مختلف ہیں۔ 2۔ توحید کے تقاضے پورے کرنے کا مفہوم بھی واضح ہوا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مدح میں فرمایا: وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کی بھی مدح فرمائی ہے کہ وہ شرک سے بیزار ہوتے ہیں۔ 5۔ دم کرنے اور جسم داغنے کے طریقہ علاج کو ترک کرنا، توحید کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ 6۔ ان تمام اوصاف کا احاطہ کرنا ہی درحقیقت حقیقی توکل ہے۔ 7۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے علم کی گہرائی اور ان کی حقیقت پسندی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بلا حساب جنت میں جانے والوں کو یہ بلند مقام اور مرتبہ محض عمل کی بدولت حاصل ہو گا۔ 8۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا خیر اور نیکی کے کاموں پرحریص ہونا۔ 9۔ امت محمدیہ درجات کی بلندی اور کثرت تعداد کے لحاظ سے تمام امتوں سے افضل اور برتر ہے۔ 10۔ موسی علیہ السلام اور ان کی امت کی فضیلت بھی عیاں ہو رہی ہے۔ 11۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں۔
[1] حدیث مبارک کے ان الفاظ سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو کثرت تعداد کو صحت مذہب کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ نجات پانے والے اگرچہ قلیل تعداد میں ہی ہوں۔ حقیقت میں یہی سوادِ اعظم ہیں۔ کیونکہ ان کی قدرو منزلت اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند ہے۔ لہٰذا لوگوں کی کثرتِ تعداد پر دھوکہ نہ کھانا چاہئے کیونکہ سابقہ لوگ اسی کثرت کے گھمنڈ میں آکر ہلاک ہوگئے، حتیٰ کہ بعض اہل علم بھی جاہلوں اور گمراہ افراد کے عقائد میں گرفتار ہوگئے اور کتاب و سنت کو پس پشت ڈال دیا۔ وہ ستر ہزار افراد جو بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے ان کی نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ شرک کی کسی بھی قسم میں مبتلا نہ ہوں گے اور اپنی حقیر سے حقیر ضرورت کو بھی انہوں نے غیر اللہ کے سامنے نہ رکھاہوگا، حتیٰ کہ دم کرانے اور سنگی لگوانے تک کی پروانہ کی۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ ان کا اللہ پر توکل اور بھروسہ تھا۔ اپنی مشکلات صرف اللہ کے سامنے پیش کرتے تھے اور اللہ کی قضا و قدر کے علاوہ کسی کی طرف بھی ان کی توجہ نہ تھی۔ وہ صرف اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے، اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ اللہ کی تقدیر اور اس کی مرضی کے مطابق آتی ہیں لہٰذا وہ مصائب و مشکلات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں جناب یعقوب علیہ السلام کا رجوع الی اللہ منقول ہے کہ:﴿قَالَ اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثّیِْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اﷲ﴾ انہوں نے کہا کہ ’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔‘‘