کتاب: نور توحید - صفحہ 235
اس باب کے مسائل 1۔ اس باب سے آیت کریمہ:﴿وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ﴾ کی تفسیر خوب واضح ہوئی۔ 2۔ گزشتہ بحث سے ثابت ہوا کہ یہود کے ہاں تو رات میں بہت سی صحیح باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک موجود و محفوظ تھیں۔ یہود نے نہ تو ان کا انکار کیا اور نہ ان کی کوئی تاویل کی۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب یہودی عالم نے ان باتوں کا ذکر کیا تو آپ نے اس کی تصدیق فرمائی اور قرآن مجید نے بھی اس کی تائید فرمائی۔[1] 4۔ آپ کا مسکرانا اس یہودی عالم کی ان عظیم عالمانہ باتوں کی بنا پر تھا۔ 5۔ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے دو ہاتھوں کی تصریح ہے کہ قیامت کے دن تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں اور زمینیں اس کے دوسرے ہاتھ میں ہوں گی۔ 6۔ بلکہ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دوسرے ہاتھ کو بائیاں کہنے کی صراحت بھی ہے۔ 7۔ اللہ اس وقت انتہائی جلال کے ساتھ بڑے بڑے سرکش اور متکبرین کو پکاریگا۔ 8۔ اور سارے آسمان اور زمینیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں یوں ہوں گی جیسے کسی کے ہاتھ میں رائی کا دانہ۔ 9۔ اللہ تعالیٰ کی کرسی آسمانوں کی نسبت بہت بڑی ہے۔
[1] یہ احادیث اور اس مفہوم کی دوسری احادیث مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اس کی قدرت و رفعت کے بارے میں واضح طور سے دلالت کناں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بندوں پر اس کی معرفت کے دروازے اس کی صفات کی بنا پر ہی کھلتے ہیں۔ جیسا کہ نصوصِ کتاب و سنت، سلف امت اور ائمہ کرام سے ثابت ہے۔ وہ اثبات بلا تمثیل اور تتریہ بلاتعطیل ہے۔ اس کی عبادت، ربوبیت، اور الوہیت میں کوئی اس کا مثیل اور ساجھی نہیں۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو ایمان کی بنیاد ہے اور جس پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے۔ مذکورہ بالا صحیح احادیث پر ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ربِّ کریم کی کامل اور ایسی عظمت و رفعت بیان کی ہے جو کہ اس کی ذاتِ کبریائی کو زیبا ہے۔ اور بعض ان صفاتِ الٰہی کی تصدیق بھی فرمائی جن کا یہودی عالم نے ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے شایانِ شان ہیں۔ اور اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان احادیث سے اللہ تعالیٰ کے عرشِ عظیم پر مستوی ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ (نعوذ باﷲ) ان اسماء و صفات سے ظاہری معنی مراد نہیں۔ اور یہ بھی کہیں نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ ہیں۔ اگر یہ باتیں درست اور صحیح ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کے یہ امین ترین انسان اپنی اُمت کو ضرور بتاتے کیونکہ ربِّ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین اسلام کو مکمل فرمایا اور تمام نعمتوں سے نوازا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری وضاحت سے اس دین کو لوگوں تک پہنچا دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سب پر ایمان لائے اور ان کو تسلیم کیا وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لائے اُن سب صفات پر بھی ایمان لائے جو کتاب اللہ میں مذکور ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود اِن کے ایمان لانے کی تصدیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (ترجمہ) ’’جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارا اُن پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہے۔‘‘ کتاب اللہ اِبتدا سے انتہا تک ؛سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؛صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین عظام اور تمام ائمہ کا کلام اس سے بھرا پڑا ہے کہ ربِّ کریم ہر چیز سے بلند ہے اور یہ کہ وہ آسمانوں اور زمینوں سے اوپر عرش پر ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی آیات اس پر شاہد ہیں: (ترجمہ) ’’اُس کے ہاں جو چیز اُوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اور عمل صالح اس کو اُوپر چڑھاتا ہے‘‘ (الفاطر:۱۰)۔ ’’اے عیسیٰ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا۔‘‘ (آل عمران:۵۵)۔ ’’بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔‘‘ (النساء:۱۵۸)۔ ’’عروج کے زینوں کا مالک ہے، ملائکہ اور رُوح اُس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں۔‘‘ (السجدۃ:۵)۔