کتاب: نور توحید - صفحہ 234
’’ دنیاوی آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اسی طرح ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان، کرسی اور پانی کے درمیان بھی پانچ پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پانی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ اور اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے۔ یاد رکھو! تمہارا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ‘‘[1] اس روایت کو ابن مہدی، حمادبن سلمہ سے، وہ عاصم سے، وہ زر سے اور وہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ اور اسی طرح اسے مسعودی، عاصم سے، وہ ابووائل سے اور وہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔اس کی کئی اسناد ہیں۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ہل تدرون کم بین السمائِ والأرضِ؟ قلنا اللّٰه ورسولہ أعلم۔ قال: بینہما مسِیرۃ خمسِمِائۃِ سنۃ، ومِن کلِ سماء ِإلی سمائٍ مسِیرۃ خمسِمِائۃِ سنۃ، وکِثف کلِ سمائٍ مسِیرۃ خمسِمِائۃِ سنۃ، وبین السمآئِ السابِعۃِ والعرش بحر بین أسفلِہِ وأعلاہ ما بین السمائِ والأرضِ، واللّٰه تبارک وتعالی فوق ذلِک ولیس یخفی علیہِ شیئٌ مِن أعمالِ بنِی آدم۔))[2] ’’کیا تم جانتے ہو کہ زمین اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اور ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی مسافت کے برابر ہے۔ ساتویں آسمان اور عرش الٰہی کے درمیان ایک سمندر ہے۔ اس کے نیچے اور اوپر والے حصوں کے درمیان بھی اپنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے(یعنی پانچ سو سال کی مسافت) اور اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہے۔ اوربنی آدم کے اعمال میں سے کوئی عمل اس سے پوشیدہ اور مخفی نہیں ‘‘[3]
[1] [(اخرجہ الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ، ح:26 و ابن خزیمۃ فی کتاب التوحید، ح:594، و الطبرانی فی المعجم الکبیر، ح:8987)] [2] (سنن ابی داود، السن، باب فی الجھمیۃ، ح:4723 و مسند احمد:1/ 206، 207) [3] اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے اور دیگر صفات کا جس نے سب سے پہلے انکار کیا وہ جعد بن درہم تھا۔ اس بد عقیدہ شخص کو خالد بن عبداللہ القسری نے قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ بہت مشہور ہے۔ جعد بن درہم کے عقیدئہ بد کو جہم بن صفوان نے پروان چڑھایا جس کو فرقہء جہمیہ کا امام کہا جاتا تھا۔ اس نے اس عقیدہ کی خوب تشہیر کی۔ اور متشابہ آیات سے استدلال کر کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا۔ جہم بن صفوان تابعین کے آخری دور میں ہوا ہے۔ اس کے اس بد عقیدہ کی تردید میں اِس دور کے جید علماء کرام اور ائمہ نے کی۔ امام اوزاعی، امام ابوحنیفہ، امام مالک، لیث بن سعد ثور، حماد بن زیر، حماد بن سلمہ، ابن المبارک رحمہم اللہ تعالیٰ۔ اور ان کے بعد کے آئمہ ہدیٰ نے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔