کتاب: نور توحید - صفحہ 230
((یا یہا الناس، قولوا بِقولِکم، ولا یستہوِینکم الشیطان، أنا محمد، عبد اللّٰه ورسولہ، وما أحِب أن ترفعونِی فوق منزِلتِی التِی أنزلنِی اللّٰه عز وجل۔))[1] ’’ اے لوگو! اس قسم کے الفاظ کہہ لیا کرو۔ خیال رکھنا کہ کہیں شیطان تمہیں بہکانہ دے۔ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبہ سے بڑھا دو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے‘‘[2] اس باب کے مسائل 1۔ آپ نے امت کو غلو، اور مبالغہ آمیزی سے موقع بموقع ڈرایا اور منع فرمایاہے۔ 2۔ جب لوگ کسی کو اپنا سردار قرار دیں تو جواباً اسے کیا کہنا چاہیے؟ اسے مغرور و متکبر ہونے کی بجائے تنبیہ کرنی چاہیے کہ حقیقی سردار تو اللہ تعالیٰ ہے۔ 3۔ آپ نے فرمایا:’’ کہیں شیطان تمہیں اپنے دام میں نہ پھانس لے۔‘‘ان لوگوں نے اگرچہ درست باتیں کی تھیں۔ 4۔ آپ کے ارشاد:(ما أحِب أن ترفعونِی فوق منزِلتِی…) ’’میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اللہ کے عطا کردہ میرے مرتبہ و مقام سے بڑھادو۔‘‘ [’’اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو اپنے حق میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے حد درجہ نفرت تھی]۔ اس باب کی شرح: باب: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کی حمایت اور شرک کی راہوں کا انسداد اس عنوان کا ایک باب اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے۔ مصنف نے اس موقع و مقام کے اہتمام کی وجہ سے دوبارہ اسی نام
[1] (عمل الیوم و اللیلۃ للنسائی، ح:248، 249 ومسند احمد: 3/ 153، 241، 249) [2] ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف بیان کیے وہ واقعی آپ میں موجود تھے لیکن آپ نے شرک کے سدباب کے لیے فرمایاکہ میں محمد، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں قطعا یہ پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبہ سے بڑھاؤ جو اللہ عزوجل نے مجھے دے رکھا ہے۔ یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ہر قابل تعظیم ہستی کے بارے میں یہی حکم ہے کہ اس کی شان میں اس قدر غلو نہ کیا جائے کہ تعظیم کرنے والے اور اس ہستی کے درمیان شیطانی عمل دخل ہو جائے یعنی اس طرح سے تعظیم نہ کی جائے کہ انسان شرک کا مرتکب ہو بیٹھے۔ اسی طرح کسی کو السیدکہنا بھی درست نہیں کیونکہ اس کے معنی بھی ساری کائنات کے سردار کے ہیں۔ عموما مشرکین اپنے بڑوں کی تعظیم کے لیے جو کلمہ السید بولتے ہیں ، یہ شرعا نا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میری مدح و تعریف میں جائز و مناسب کلمات کہہ سکتے ہو۔‘‘ اس لیے آپ کی بلکہ کسی بھی انسان کی تعظیم کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنا جن میں غلو ہو، درست نہیں کیونکہ اس سے مخاطب کے دل میں غرور پارسائی آسکتا ہے اور وہ اللہ کے حضور عجزو انکسار ترک کرکے اس کی توفیق خاص سے محروم ہو سکتا ہے، لہذا اس سے ازحد اجتناب بہت ضروری ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’میری تعریف میں غلو سے کام نہ لینا جیسا کہ نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلو کیا تھا، میں تو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔‘‘