کتاب: نور توحید - صفحہ 229
باب: مَا جَآئَ فی حمایۃ النبی حمی التوحید و سدہ طرق الشرک
باب: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کی حمایت اور شرک کی راہوں کا انسداد۔
حضرت عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
((اِنْطَلَقْتُ فِیْ وَفْدِ بَنِیْ عَامِرٍ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔ فَقُلْنَا: اَنْتَ سَیِّدُنَا۔ فَقَالَ: السَّیِّدُ اللّٰه تَبَارکَ وَ تَعَالٰی۔قُلْنَا: وَ اَفْضَلنَا فَضْلًا وَّ اَعْظَمُنَا طَوْلاً۔فَقَالَ: قُوْلُوْا بِقَوْلِکُمْ اَوْ بَعْضَ قَوْلِکُمْ وَ لَا یَسْتَجْرِیَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ۔))[1]
’’ میں بنو عامر کے ایک وفد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے کہا: آپ ہمارے سیدہیں۔ آپ نے فرمایا: سید تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر ہم نے کہا: مقام و مرتبہ کے لحاظ سے آپ ہم سب سے برتر، افضل اور بہت زیادہ احسان کرنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ اور اس قسم کی جائز و مناسب بات کہہ سکتے ہو۔ خیال رکھنا کہ کہیں شیطان تمہیں اپنے جال میں نہ پھنسالے‘‘[2]
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے کہا:
’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اے ہم سب سے بہتر و افضل! اور سب سے بہتر کے فرزند!اے ہمارے سردار! اور ہمارے سردار کے بیٹے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] (سنن ابی داود، الادب، باب فی کراھیۃ التمادح، ح:4806 ؛ وبسند جیدٍ ومسند احمد:4/ 24، 25)
[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ السید اللہ تعالیٰ ہی ہے جبکہ آپ تمام اولاد آدم کے سید و سردار ہیں ، اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے گلشن توحید کی خوب حفاظت فرمائی اور شرک کے تمام تر ذرائع اور وسائل کو اچھی طرح مسدود کیا۔ کیونکہ شرک کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان کسی قابل قدر اور لائق تکریم ہستی کی مدح و ستائش کے لیے الفاظ میں غلو کرے اور حد سے تجاوز کر جائے۔یاد رہے!کسی قابل قدر شخصیت کو، مخاطب کرکے اسے سید کہنا یا کسی کی سیادت کی نسبت ساری کائنات کی طرف کرنا منع ہے۔ اسی طرح کسی کو السیدکہنا بھی درست نہیں کیونکہ اس کے معنی بھی ساری کائنات کے سردار کے ہیں ، لہذا عموما مشرکین اپنے بڑوں کی تعظیم کے لیے جو کلمہ السید بولتے ہیں ، یہ شرعا نا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مدح و تعریف میں جائز و مناسب کلمات کہہ سکتے ہو۔ اس لیے آپ کی بلکہ کسی بھی انسان کی تعظیم کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنا جن میں غلو ہو، درست نہیں کیونکہ اس سے مخاطب کے دل میں غرور پارسائی آسکتا ہے اور وہ اللہ کے حضور عجزو انکسار ترک کرکے اس کی توفیق خاص سے محروم ہو سکتا ہے، لہذا اس سے ازحد احتراز ضروری ہے۔