کتاب: نور توحید - صفحہ 227
باب: لَا یُسْتَشْفِعُ بِاللّٰهِ عَلٰی خَلْقِہٖ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے سامنے بطورسفارشی پر پیش کرنے کی ممانعت حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ ایک بدوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر شکایت کی:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جانیں تلف ہو گئیں، بچے بھوک سے بلکنے لگے اور مویشی مرنے لگے، آپ ہمارے لیے اپنے رب سے بارش کی دعا فرمائیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کو آپ کے پاس اور آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے[اس کی بات سن کر] بار بار سبحان اللہ، سبحان اللہ پڑھا۔ آپ بدستور سبحان اللہ پڑھتے رہے، یہاں تک کہ اس کا اثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے چہروں پر ظاہر ہونے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: ((ویحک أتدرِی ما اللّٰه؟ ِإن شأن اللّٰهِ أعظم مِن ذلِک، إِنہ لا یستشفع بِاللّٰهِ علی أحد من خلقہ۔))[سنن ابی داود، السنۃ، باب فی الجھمیۃ، ح:4726] ’’ تجھ پر افسوس!کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کیا ہے؟[یعنی اس کا کیا مقام اور کیا شان ہے؟]اللہ تعالیٰ کی شان اس سے کہیں بلند و برتر ہے؛ اسے کسی کے سامنے سفارشی کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا‘‘[1] اس باب کے مسائل 1۔ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے سامنے بطور سفارشی پیش کرنے کی ممانعت۔ 2۔ بدوی کی بات سے آپ کے چہرہ انور اس قدر متغیر ہوا کہ اس کے اثرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چہروں پر بھی ظاہر ہوئے۔ 3۔ آپ نے اعرابی کی بات کے دوسرے حصے کہ ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بطور سفارشی پیش کرتے ہیں پر نکیر نہیں فرمائی۔[2]
[1] یعنی اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے سامنے بطور واسطہ اور وسیلہ پیش کرنا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے کہیں بلند تر ہے جبکہ مخلوق، رب تعالیٰ کے سامنے وضیع و حقیر ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدوی کی بات کو سن کر بار بار ، سبحان اللہ، کہا کہ اللہ تعالیٰ ایسے امور و اوصاف سے بلکہ ہر شائب نقص اور سو ظن سے منزہ اور بالا تر ہے۔کیونکہ ایسا کرنا توحید کے منافی اور اللہ تعالیٰ کے حق میں بے ادبی اور گستاخی ہے۔ [2] [ گویا مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بطور سفارشی پیش کیا جاسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے سامنے نہیں ]۔