کتاب: نور توحید - صفحہ 226
((إن الرجل لیتکلم بِالکلِمۃِ لا یلقِی لہا بالا…))
’’بسا اوقات انسان کوئی ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے کہ انسان کو تو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہوتا…۔‘‘
۵۔ بسا اوقات کسی کا انتہائی ناپسندیدہ قول یا فعل، کسی دوسرے کی مغفرت کا سبب بن جاتا ہے۔[1]
[1] اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھانا دو اعتبار سے ہو سکتا ہے: اول: تکبر اور جبروت کے طور پر۔ قسم اٹھانے والا اپنے آپ کو اتنا بڑا اور اونچا سمجھتا ہو کہ وہ اپنی قسم کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ پر حق سمجھتا ہو۔ ایسا کرنا توحید کے کمال کے بھی منافی ہے؛ اور توحید کی اصل بنیاد کے بھی خلاف ہے۔ اور ایسی قسم اٹھانے والے کے لیے عذاب کی وعید ہے جیسا کہ اس حدیث میں وارد ہو ا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر اپنی مرضی اور پسند کی قسم اٹھانا؛ اور اس کے مطابق حکم لگانا۔مثلاً کوئی یوں کہے: اللہ کی قسم! فلاں کو ایسی چیز ہر گزنہیں مل سکتی۔ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے نفس میں تکبر کرتے ہوئے ایسی قسم اٹھائے۔ وہ اللہ کی نام کی قسم اٹھاتا ہے؛ اس کی چاہت یہ ہوتی ہے کہ اس کا حکم بھی ویسے ہی ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اور وہ بڑائی میں آکر تکبر سے ایسی قسم اٹھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ویسے ہی کریں گے جیسے وہ گمان کرتا ہے۔ یہ بڑائی اور تکبر درحقیقت اللہ تعالیٰ کے افعال اور احکام میں ایک طرح کی مداخلت ہے۔ ایسا کام کسی بھی ایسے دل سے صادر نہیں ہوسکتا جس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم او رجلال ہو۔
دوم: یہ کہ انسان بڑائی اور تکبر سے تو اللہ تعالیٰ پر قسم نہ اٹھائے۔ لیکن اس لیے وہ قسم اٹھائے کہ وہ جس چیز کا ایمان و یقین رکھتا ہے ؛ وہ امر واقع میں ؛ یا جس چیز کا وہ سامنا کر رہا ہے ؛ اس میں حقیقت میں بھی صحیح ہو۔ اور یہ انسان اللہ تعالیٰ پر جب قسم اٹھاتا ہے کہ مستقبل میں ایسا ہوگا؛ تو یہ تذلل اور خضوع کے اعتبار سے ہوتا ہے ناکہ انانیت اور تکبر کے اعتبار سے۔ اوریہی وہ چیز ہے جو اس حدیث میں وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
((إن من عباد اللہ من لو أقسم علی اللہ لأبرّہ۔))[البخاری ۲۷۰۳ ؛ مسلم ۱۶۷۵۔]
’’بیشک اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں ؛ اگر وہ اللہ کی قسم اٹھالیں ؛ تو وہ اسے پورا کردے۔‘‘
اس لیے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا نام لیکر قسم اٹھائی ہے؛ جو کہ تکبر؛ بڑائی اور خودنمائی کے طور پر نہیں تھی؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور حاجت اور افتقار کے ہے۔پس جب اس نے قسم اٹھائی تو اللہ کی بارگاہ میں اپنی ضرورت اور حاجت کی وجہ سے قسم اٹھائی۔ اور اس نے اس کی تائید و تاکید میں اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء حسنی کی قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کی بنا پر اٹھائی ہے۔ تو ایسا کرنا جائز ہے۔ تو بیشک اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں ؛ اگر وہ اللہ کی قسم اٹھالیں ؛ تو وہ اسے پورا کردے۔‘‘ کیونکہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور عبودیت ؛ انکساری اور تواضع پائی جاتی ہے؛ جس کے وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے سوال کو پورا کرتے ہیں ؛ اور اس کی طلب اور رغبت پوری ہو تی ہے۔