کتاب: نور توحید - صفحہ 224
5۔ نیز کفار سے جہاد اور قتال میں بھی اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔[1] 6۔ اہل علم اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں نمایاں فرق ہے۔[اہل علم کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا کوئی فیصلہ غلط نہیں ہو سکتا]۔ 7۔ یہ کہ بوقت ضرورت صحابی کوئی ایسا فیصلہ کرسکتا ہے جس کے متعلق وہ نہیں جانتا کہ یہ فیصلہ حکم الٰہی کے مطابق ہے یا نہیں ؟۔ اس باب کی شرح: باب: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کابیان اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ انسان ان احوال اور مواقع سے ڈر کر اور بچ کر رہے جہاں پر عہد توڑے جانے یا ان میں خلل ڈالے جانے کا اندیشہ ہو۔ حالانکہ اہل دشمن معاہد سے بھی اگراللہ اور اس کے رسول کا ذمہ دیا ہو تو اسے پورا کرنا چاہیے۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی اس عہد کواگر[مسلمانوں کی طرف سے] توڑاگیا تو یہ مسلمانوں کی طرف سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کی پامالی اور بے حرمتی ہوگی۔ اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم کو توڑ دیا جائے گاجوکہ توحید کا ایک بڑا رکن ہے؛ اور ایک بڑے برے عمل کا کا ارتکاب کیا جائے گا؛ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف توجہ بھی دلائی ہے۔[2] مزید برآں وعدہ وفا کرنے[اور ذمہ پورا کرنے]میں دین اور اسلام کی اعانت ہے جس کی وجہ سے کفار دین اسلام میں رغبت رکھنے لگتے ہیں۔ اسلام میں عہد و پیمان کے ساتھ وفاداری کرنا؛ خصوصاً وہ عہد جنہیں کسی بھی طرح سے پختہ کیا گیا ہے؛ یہ اس دین کے ان محاسن میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے انصاف پسند دشمن بھی اسلام اور اہل اسلام کی فضیلت کا اعتراف کرتے ہیں۔
[1] اس آیت مبارکہ میں عہد سے مراد قسم ہے اور پختہ کی ہوئی قسموں سے مراد لوگوں کے باہمی وہ عہدو پیمان ہیں جنہیں مضبوط کرنے کے لیے قسمیں کھائی گئی ہوں۔ لہذا حق باری تعالیٰ کی تعظیم کرتے ہوئے قسم اور باہمی عہد و پیمان کو پورا کرنا واجب ہے کیونکہ کسی کا م پر قسم کھانے کا مطلب یہی ہے کہ انسان اس کام کو اللہ تعالیٰ کی خاطر پورا کرنے کی تاکید کر رہا ہے اور اسے اپنے ذمے لے رہا ہے۔ جب وہ اپنی قسم کے خلاف کرے گا یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے اس عہد کو توڑے گا تو گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اس طرح نہیں کی جس طرح اسے کرنی چاہئے تھی کہ اس تعظیم کا پاس کرتے ہوئے قسم کھاتے وقت ہی اس بات سے ڈرجاتا کہ قسم کو پورا کرنے میں اللہ کا یہ واجب حق ادا نہیں کرسکے گا۔ [2] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش نظر رکھنی چاہیے۔ کوئی شخص لوگوں کو اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی طرف سے امان اور تحفظ نہ دے بلکہ اپنی طرف سے امان اور تحفظ دینا چاہیے۔اہل توحید اور علوم دینیہ کے طلبہ جو دین کے حوالہ سے شہرت رکھتے ہیں انہیں خاص طور پر ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ان سے کوئی ایسا لفظ یا بات یا فعل سرزد نہیں ہونا چاہیے جو ان کے مقام و مرتبہ کے منافی ہو۔ لوگوں کے ساتھ معاملات ، تعلقات اور میل جول میں ایسا انداز اپنانا چاہیے جس سے ظاہر ہو کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خوب تعظیم بجالاتے ہیں۔انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی احتیاط کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم کماحقہ بجالائیں گے۔