کتاب: نور توحید - صفحہ 219
باب: کثرت سے قسم اٹھانے کا بیان
[کثرت سے قسم اٹھانا مذموم ہے]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاحْفَظُوْا اَیْمَانَکُمْ﴾[المائدۃ 89]
’’اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔‘‘ یعنی جب قسم اٹھاؤ تو اسے پورا کرو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((الْحَلْفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلْکَسَبِ۔))[1]
’’ قسم کھانے سے سامانِ تجارت فروخت تو ہو جاتا ہے لیکن برکت ختم ہو جاتی ہے۔‘‘
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ثَلَاثَۃٌ لَّا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَ لَا یُزَکِّیْھِمْ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ: اُشَیْمِطُ زَانٍ وَ عَآئِلٌ مُّسْتَکْبِرٌ وَ رَجُلٌ جَعَلَ اللّٰهَ بِضَاعَتَہٗ لَا یَشْتَرِیْ اِلاَّ بِیَمِیْنِہٖ وَ لَا یَبِیْعُ اِلاَّ بِیَمِیْنِہٖ۔))[2]
’’ اللہ تعالیٰ تین قسم کے انسانوں سے بات نہ کرے گا، نہ اُن کو پاک کرے گا اور اُن کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔ ۱۔ بوڑھا زانی۔ ۲۔ تکبر کرنے والا فقیر۔ ۳۔ وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا مال سمجھا ہوا ہے۔ بایں صورت کہ مال کو خریدتے اور بیچتے وقت قسم ضرور اُٹھاتا ہے۔‘‘
[1] [صحیح البخاری، البیوع، باب یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات، ح:2087 و صحیح مسلم، المساقاۃ، باب النھی عن الحلف فی البیع، ح:1606 ]
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسان اپنے مال کے بارے میں یوں قسم اٹھاتا ہے کہ میں نے اس مال کو اتنی قیمت دے کر خریدا ہے اور مجھے اتنی قیمت مل رہی ہے تو خریدار اس کی قسم پر اعتبار کرتے ہوئے اور اس کو سچا سمجھتے ہوئے اصل قیمت سے زیادہ ادا کر دیتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنی قسم میں سچا نہیں ہوتا بلکہ جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کو زیادہ قیمت ملے۔ اس نے یہ جھوٹی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اس کو اس کی سزا یہ ملتی ہے کہ اس کے مال سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔ برکت کا ختم ہو جانا اتنا بڑا نقصان ہے کہ اس نے جو جھوٹی قسم اٹھا کر معمولی سی قیمت زیادہ وصول کی تھی، وہ برکت ختم ہو جانے کی تلافی نہیں کر سکتی۔ بعض اوقات تو اس قدر سزا ملتی ہے کہ راس المال ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ رہا وہ اجر و ثواب جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ملے گا تو وہ اطاعت الٰہی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
[2] [معجم الطبرانی، رقم:6111؛ بسند صحیح]