کتاب: نور توحید - صفحہ 217
بخاری اور مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ صَوَّرَ صُوْرَۃً فِی الدُّنْیَا کُلِّفَ اَنْ یَّنْفُخَ فِیْھَا الرُّوْحَ وَ لَیْسَ بِنَافِخٍ۔))[1] ’’جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی، اسے قیامت کے دن اس تصویر میں روح پھونکنے کا حکم دیا جائے گا مگر وہ اس میں روح ہر گز نہ پھونک سکے گا۔‘‘ حضرت ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: ’’ کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ تم کسی تصویر کو مٹائے بغیر اور کسی بلند قبر کو زمین کے برابر کیے بغیر نہ چھوڑنا‘‘[2]
[1] (صحیح البخاری، اللباس، باب من صور صورۃ کلف یوم القیامۃ... ح:5963 وصحیح مسلم، اللباس، باب تحریم تصویر صور الحیوان ...، ح:2110) [2] [صحیح مسلم، الجنائز، باب الامر بتسویۃ القبر، ح:969] سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل اورقبرستان سے متعلق آج کل کے لوگوں کے رویہ کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے اور دونوں کے طریق کار ایک دوسرے سے جدا ہیں اور یہ دونوں طریق ہائے عمل کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ: ٭قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے لیکن آج کل کا مسلمان قبروں کی طرف منہ کر کے بلکہ قبرستان میں جا کر نماز پڑھنے کا عادی ہو چکا ہے۔ ٭ قبرستان کو عبادت گاہ بنانے سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے لیکن آج کل قبرستان میں مسجدیں بنائی جا رہی ہیں اور ان کا نام درگاہ رکھاجاتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے گھروں سے مشابہت ہو جائے۔ ٭قبر پر چراغاں کرنے کو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے روکا اور منع فرمایا تھا لیکن لوگوں نے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کر رکھیں ہیں جن کی آمدنی سے قبروں پر چراغاں ہوتا ہے۔ ٭ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان پر میلے لگانے سے منع فرمایا ہے ؛ لیکن عوام نے خاص قسم کے میلے رچا رکھے ہیں جہاں بڑی دھوم دھام سے سالانہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جیسے مسلمان عید یا حج کے لئے اجتماع کرتے ہیں بلکہ آج کل ان میلوں میں عیدین سے بھی زیادہ چہل پہل نظر آتی ہے۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو زمین کے برابر رکھنے کا حکم فرمایا جیسا کہ زیر مطالعہ حدیث میں مذکور ہے۔ صحیح مسلم میں ثمامہ بن شفی سے مروی ہے کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ سرزمین روم میں سفر کر رہے تھے کہ رودسؔ کے مقام پر ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا۔ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق اس کی قبر زمین کے برابر کر دی گئی پھر فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ لیکن آج کل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں حدیث کی مخالفت میں پورا پورا زور لگا رہے ہیں اور قبر کو اتنا اونچا کر دیتے ہیں جیسے کسی کا گھر ہو اور قبروں پر بڑے بڑے مزار اورقبے بنا رہے ہیں۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونا گچ کرنے اور اس پر کسی قسم کی تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے صحیح مسلم میں ہے: ’’قبروں کو چونا گچ کرنے، ان پر بیٹھنے اور ان پر کسی قسم کی تعمیر کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے۔‘‘ اور سنن ابوداؤد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے اور ان پر کسی قسم کی عبارت لکھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ لیکن آج کل بڑی بڑی تختیوں پر قرآن کریم کی آیات لکھ کر قبروں پر لگاتے ہیں۔ ٭ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تو یہ ہے کہ قبر پر صرف قبر والی مٹی ہی ڈالی جائے، اس کے علاوہ دوسری جگہ کی مٹی نہ ڈالی جائے۔ جیسا کہ ابوداؤد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونا گچ کرنے، اور اس پر کسی قسم کی عبارت لکھنے اور دوسری جگہ کی مٹی ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (ابوداؤد)۔ لیکن آج کل لوگ بڑی بڑی اینٹیں اور پتھر رکھنے سے باز نہیں آتے بلکہ قبر کو چونا گچ کرنے سے بھی نہ رُکتے۔ ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی قبروں پر اینٹ وغیرہ رکھنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ قبروں کی تعظیم کرنے والے قبروں پر میلے رچانے والے اور ان پر چراغاں کرنے والے ایسے افراد جو قبروں پر مسجدیں تعمیر کرواتے ہیں ،[حاشیہ جاری ہے]