کتاب: نور توحید - صفحہ 215
5۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔
6۔ تو قلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی وقت قیامت تک ہونے والے تمام امور لکھ ڈالے۔
7۔ تقدیر پر ایمان نہ لانے والوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے زاری اور لا تعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔
8۔ نیز سلف صالحین شبہات پیدا ہونے کی صورت میں اہل علم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تشفی کیا کرتے تھے۔
9۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ازالہء شبہات کے لیے جواب دیا اور اپنے دلائل کو براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا۔
اس باب کی شرح:
باب:منکرین تقدیر کا بیان
کتاب و سنت اور اجماع امت کے دلائل کی روشنی میں ثابت ہے کہ تقدیر پر ایمان رکھنا ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ یہ کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہوگیا؛ اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا۔ پس جو کوئی اس پر ایمان نہ رکھتا ہو ؛ تووہ اللہ تعالیٰ پر حقیقی ایمان نہیں رکھتا۔ ہم پر واجب ہوتا ہے کہ تقدیر کے تمام مراتب پر بھی ایمان رکھیں۔ پس ہم ایمان رکھتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ کو ہر ایک چیز کا علم ہے۔ اور اس نے وہ سب کچھ لوح محفوظ پر ایک کتاب میں لکھ رکھا ہے جو ہوا ؛ اور جو کچھ قیامت تک ہوگا۔ اور تمام تر امور اللہ تعالیٰ کی تخلیق و تقدیر اور تدبیر سے پیش آتے ہیں۔
ایمان بالقدر تب کامل ہوگا جب یہ علم بھی ہو کہ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو اس کی مرضی کے خلاف پر مجبور نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں اختیار دیا ہے کہ ان میں سے جو چاہے اطاعت گزاری کے کام کرے اور جو چاہے وہ نافرمانی کے کام کرے۔ [1]
[1] تقدیر: تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کے متعلق پہلے سے مکمل علم ہے ، اس نے وہ سب کچھ اپنے ہاں لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے اور ہر امر میں اس کی مشیت ہی کار گرہوتی ہے۔ وہی ہر چیز کا اور ہر چیز کے تمام اوصاف کا خالق ہے حتی کہ وہی اپنے بندوں کے افعال کا خالق بھی ہے۔
جب تک تقدیر پر ایمان کا زبان سے اقرار اور اسے دلی طور پر تسلیم نہ کیا جائے، اس وقت تک تقدیر پر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ کے علم اور لوح محفوظ میں اس کی تحریر کا انکار کرنا کفر ہے۔ تقدیر کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن کا انکار کفر سے کم درجے کا ہے اور اشیا کے متعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی تخلیق کا انکار بدعت اور توحید کے منافی ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین نے یہ بات اس لیے کہی، کہ اللہ تعالیٰ صرف مسلمان شخص کے اعمال صالحہ کو قبول کرتا ہے اور جو شخص تقدیر کا منکر ہو تو وہ مسلمان ہی نہیں ، اس لیے اس کا کوئی بھی عمل درجہ قبولیت نہیں پاسکتا خواہ وہ احد پہاڑ کے برابر سونا ہی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیوں نہ کردے۔
تقدیر پر ایمان کا مفہوم یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ وہ اعمال کو سرانجام دینے میں مجبور محض نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے آزادی دی گئی ہے۔ وہ اپنی مرضی اور اختیار سے اچھا یا برا جو کرنا چاہے کرسکتاہے۔ اسی لیے تو اسے نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر مجبور محض ہوتا تو حکم دینے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے تقدیر کے متعلق جب سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’تقدیر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا دوسرا نام ہے۔‘‘ امام ابن عقیل رحمۃ اللہ علیہ نے اس جواب کو بہت پسند فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے کوئی چیز زیادہ طاقتور نہیں ہے منکرین تقدیر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار کر کے گمراہ ہو گئے بعض علمائے سلف کا کہنا ہے کہ منکرین تقدیر سے علم اور دلائل سے مناظرہ کرو۔ اگر یہ لوگ مان جائیں تو مغلوب ہو جائیں گے اور اگر انکار پر اڑے رہے تو کافر قرار پائیں گے۔