کتاب: نور توحید - صفحہ 212
3۔ بدگمانی کی صورتیں بے شمار ہیں۔
4۔ اس بدگمانی سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جواللہ تعالیٰ اسماء و صفات کی حقیقت پہچاننے کے ساتھ ساتھ معرفت نفس بھی رکھتا ہو۔
اس باب کی شرح:
باب: اللہ تعالیٰ کے متعلق ناحق جاہلانہ بدگمانی کرنا
انسان کا ایمان اور توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتے جب تک وہ ان تمام چیزوں کا عقیدہ نہ رکھے جن کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے؛ جیسے اس کے اسماء و صفات؛ اور کمالات۔ اورہر اس بات کی تصدیق نہ کرلے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے ؛ وہ ہوکر رہے گا۔[1]
اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نصرت اور حق کی سربلندی اور باطل کی سرکوبی کا جو وعدہ کیا ہوا ہے؛ وہ پورا ہو کر رہے گا۔ پس یہ عقیدہ رکھنا ایمان کا حصہ ہے؛ اور اس پر ایمان رکھنے سے اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔
ہر وہ گمان جو اس کے منافی ہو؛ بلاشک و شبہ وہ جاہلیت کی بدگمانی ہے جو کہ توحید کے منافی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے متعلق بد گمانی اس کے کمال کی نفی اور انکار ہے۔ اور ان خبروں کی تکذیب ہے جو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں ؛ اور اس کے وعدہ کے پورا ہونے میں شک و شبہ ہے۔ واللہ اعلم
[1] اللہ تعالیٰ کی یہ بھی عظمت ہے کہ وہ کوئی کام، حکمت بالغہ کے بغیر نہیں کرتا۔ اس لیے واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان رکھا جائے۔ اس کی کمال حکمت، رحمت اور عدل کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کفار کی مانند اس کے متعلق کوئی بدگمانی نہ کی جائے ایسا کرنا توحید کے منافی ہے۔ شرک کرنے کے ساتھ ساتھ کفار کے اس عقیدہ میں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور تقدیر کا انکار ہے۔ کفار کے ان عقائد کو بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی ہے۔
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگ عام طور پر اللہ تعالیٰ کے مقام و مرتبہ سے واقف ہی نہیں۔ اور بہت سے لوگ ایسی بدگمانی سے بظاہر محفوظ ہوتے ہیں مگر مخفی طور پر ان کے دلوں میں بھی بدگمانیاں اور بدعقیدگی پائی جاتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ مومن اپنے دل کو اللہ کے بارے میں ہر قسم کی بدگمانی سے صاف رکھے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور کائنات میں ان کے اثرات پر غور و فکر کرتا رہے تاکہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ راسخ رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، حق ہے اور اس کا ہر فعل اور فیصلہ برحق ہے اگرچہ بڑی سے بڑی مصیبت ہی کیوں نہ آپہنچے۔