کتاب: نور توحید - صفحہ 206
الشَّیْطٰنِ۔))[1] ’’اس چیز کی حرص کر جو تیرے لیے مفید ہو۔ اور صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ۔ اور عاجزوکاہل ہو کر نہ بیٹھا رہ۔ اور اگر تجھے کوئی پریشانی لاحق ہو تو یوں نہ کہہ، اگر میں یہ کر لیتا تو یوں ہو جاتا۔ بلکہ یوں کہہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، اس نے جو چاہا سو کیا۔ اس لیے کہ ’’اگرمگر‘‘کہنا شیطانی عمل ودخل کا سبب بنتا ہے‘‘[2] اس باب کے مسائل: 1۔ اس باب میں سورہ آل عمران کی دو آیات(154اور 168)کی تفسیر ہے[جن میں اگروگرکہنے والے منافقین کا تذکرہ ہے]۔ 2۔ نقصان ہونے پر اگر مگر کہنے کی واضح الفاظ میں ممانعت۔ 3۔ اس کی علت کا بیان کہ ’’ اگروگر‘‘ کہنے سے شیطانی عمل دخل کا دروازہ کھلتا ہے۔ 4۔ اس حدیث میں اچھی گفتگو کی رہنمائی کی گئی ہے۔ 5۔ مفید چیز کے حصول کی ترغیب اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی تلقین۔ 6۔ عاجزی، کاہلی، اور سستی کی ممانعت۔ اس باب کی شرح: باب: اگر وگر کہنے کی ممانعت جان لینا چاہیے کہ کسی انسان کا لفظ ’’لو‘‘ یعنی ’’اگر وگر ‘‘ کا استعمال کرنادو طرح سے ہوتا ہے: مذموم اور محمود۔ مذموم: اگر کسی انسان سے کوئی کام ہوچکا ہو؛ یا اس پر کوئی ایسے حالات پیش آگئے ہوں جنہیں وہ پسند نہ کرتا ہو؛ تو وہ اس صورت میں
[1] (صحیح مسلم، القدر، باب الایمان بالقدر و الاذعان لہ ح:2664ومسند احمد:2/ 366،] [2] بعض لوگ لاعلمی یاکم علمی کی بنا پر لاشعوری طور پر تقدیر کے شاکی ہوتے ہیں۔ جب کوئی ناگوار واقعہ یا حادثہ پیش آجائے تو کہنے لگتے ہیں اگر ہم یوں کرلیتے تو یوں ہوجاتا۔ اگر ہم فلاں تدبیر اختیار کرلیتے تو اس نقصان اور پریشانی سے بچ جاتے، حالانکہ جو کچھ پیش آچکا ہے اللہ کو وہی منظور تھا،اس لیے کسی پیش آمدہ واقعہ یا پریشانی کے بعد اگر مگر کی بات نہیں کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر دل و جان سے راضی رہنا چاہیے۔ اگر مگر کی باتیں کرنا حرام اور نفاق کی علامت ہے۔ کسی گزشتہ کام کے بارے میں اظہار حسرت و افسوس کے لیے اگر اور کاش جیسے الفاظ استعمال کرنا حرام ہے۔ البتہ زمانہ مستقبل میں ہونیوالے خیر و بھلائی کے کسی کا م کے لیے، رحمت الٰہی کی امید رکھتے ہوئے،اگر کا لفظ بولنا جائز ہے اور اگر مستقبل میں ہونے والے کسی کام پر اپنے تکبر و غرور کا اظہار کرتے ہوئے اگرکا لفظ کہا جائے تو ہرگز جائز نہیں۔ یہ تو گویا تقدیر الٰہی کو چیلنج ہے۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کر کے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا فریضہ انجام دے؛ اور مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے سخت ترین حالات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے۔ یہ وہی انسان کرسکتا ہے جس کا تقدیر الٰہی پر کامل ایمان ہو۔