کتاب: نور توحید - صفحہ 205
باب: ما جاء فی اللو
باب: اگر وگر کہنے کی ممانعت[1]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْئٍ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَکُلَّہٗ لِلّٰہِ یُخْفُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَکَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ کَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْ ئٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰھُنَا قُلْ لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضَاجِعِھِمْ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾[آل عمران154]
’’ کہتے تھے کیا اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے؟ کہہ دے بے شک معاملہ سب کا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنے دلوں میں وہ بات چھپاتے تھے جو تیرے لیے ظاہر نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے اگر اس معاملے میں ہمارا کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے، کہہ دے اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی جن لوگوں پر قتل ہونا لکھا جا چکا تھا اپنے مقتل کی طرف ضرور نکل آتے اور تاکہ اللہ اسے آزمالے جو تمھارے سینوں میں ہے اور تاکہ اسے خالص کر دے جو تمھارے دلوں میں ہے اور اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
نیزاللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا﴾[آل عمران168]
’’جو خود توبیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کی نسبت کہنے لگے کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو مارے نہ جاتے۔‘‘
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَ اسْتَعِنْ بِاللّٰهِ وَ لَا تَعْجَزَنَّ وَ اِنْ اَصَابَکَ شیْیئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ اَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا وَ کََذا لَکَانَ کَذَا وَ کَذَا وَ لٰکِنْ قُلْ قَدَّرَ اللّٰهُ وَ مَا شَآئَ فَعَلَ فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ
[1] اس باب میں انسان کو مصائب و مشکلات کے وقت صبر و بردباری اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور جو لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے آپ کو تقدیر کی گرفت سے آزاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی مذمت کی گئی ہے۔کسی پریشانی کے بعداگراورکاش وغیرہ الفاظ کے ساتھ اظہار حسرت کرنا منع ہے۔