کتاب: نور توحید - صفحہ 20
((فَاِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی النَّارِمَنْ قَالَ: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ [1]))[2]
’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے لآ اِلہٰ اِلّا اللّٰہ کا اقرار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دوزخ پر حرام کردیتا ہے۔‘‘
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((قَالَ مُوْسیٰ یَا رَبِّ عَلِمّنِیْ شَیْئًا اَذْکُرُکَ وَ اَدْعُوْکَ بِہٖ۔ قَالَ: قُلْ یَا مُوْسی! لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه۔ قَالَ: یَارَبِّ کُلُّ عِبَادِکَ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا۔ قَالَ: یَا مُوْسٰی! لَوْ اَنَّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعَ وَ عَامِرَھُنَّ غَیْرِیْ وَ الْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ فِیْ کَفَّۃٍ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه فِیْ کَفَّۃٍ مَالَتْ بِھِنَّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه۔))[3]
’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے ایسی چیز بتا جس سے تیری یاد کروں اور تجھ سے دُعا کیا کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ! لا اِلٰہ اِلَّا اللہ پڑھا کر۔ جناب موسی علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب: اسے تو تیرے سب بندے پڑھتے ہیں۔ فرمایا: اے موسیٰ! سوائے میرے اگر ساتوں آسمان اور ان کے باشندے اور ساتوں زمینیں، ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں اور دوسرے پلڑے میں صرف لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ رکھ دیا جائے تو لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ والا پلڑا بھاری ہو گا۔‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
((یَابْنَ اٰدَمَ لَوْ اَتَیْتَنِیْ بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِیْ لَا تُشْرِکُ بِیْ شَیْئًا لَاَتَیْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً۔))(ترمذی)
’’ اے ابن آدم! اگر تو میرے پاس گناہوں سے پوری زمین بھر کر لے آئے پھر اس میں شرک نہ ہو تو میں اسی مقدار میں بخشش کی بارش کروں گا۔‘‘
[1] [بقیہ حاشیہ]: رُوح کے بارے میں صحیح موقف: سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رُوح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اُن ارواح میں سے ایک ہیں جن کو اللہ کریم نے پیدا فرمایا اور جن سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کہہ کر اپنی ربوبیت کا اقرار کروایا تھا۔ اسی روح کو اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف بذریعہ روح الامین جبریل علیہ السلام بھیجا۔ پس جبریل علیہ السلام نے پھونک ماری اور اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کُن‘‘سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا۔
قولہ: وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ: یعنی اس بات کی گواہی دے اور اقرار کرے کہ جس جنت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں خبر دی ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لئے بنایا ہے وہ برحق اور موجود ہے۔ اس میں شک نہیں۔ اور اس بات کا بھی اقرار کرے کہ وہ دوزخ جس کو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے تیار کیا ہے اور جس کی خبر قرآن کریم میں دی گئی ہے وہ بھی برحق اور موجود ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ جنت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ: ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین جیسی ہے جو تیار کی گئی ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں ، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ کریم بڑے فضل والا ہے۔‘‘ اور دوزخ کے بارے میں فرمایا:﴿فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ﴾[البقرہ ۲۴] ’’ڈرو اُس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو تیار کی گئی ہے منکرین حق کے لئے۔‘‘
[2] صحیح البخاری، الصلاۃ، باب المساجد …، ح:425، الرقاق، باب العمل الذی یبتغی بہ وجہ اللہ، ح:6423۔و صحیح مسلم، المساجد، الرخص فی التخلف عن الجماعۃ لعذر، ح:273 / 33۔
[3] رواہ ابن حبان و الحاکم و صححہ و للترمذی و حسنہ۔موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان ، ح:2324 و المستدرک للحاکم:1 / 528 و مسند ابی یعلی الموصلی، ح:1393۔