کتاب: نور توحید - صفحہ 197
نقص اور عیب سے سالم اور مخلوق میں سے کسی ایک کی مماثلت سے محفوظ ہیں۔اوروہ اپنے بندوں کو ہر قسم کی آفات اور آزمائشوں سے محفوظ رکھنے والے ہیں۔پس یہ بندوں کی رسائی سے باہر ہے وہ اللہ تعالیٰ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں دے سکتے ؛اور نہ ہی ہرگز کوئی فائدہ پہنچانے کے قابل ہیں ؛ کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ دیں۔ بلکہ سارے لوگ اس کی بارگاہ کے فقیر ہیں۔ اور ہر حال میں اس کے محتاج ہیں ؛ وہ غنی او ربے نیاز ؛ اور قابل تعریف ہے۔[1]
[1] اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا اور ان کے دعائیہ کلمات کا محتاج نہیں۔ لہذا توحید کا تقاضا یہ ہے کہ السلام علی اللہ وغیرہ کے الفاظ نہ کہے جائیں کیونکہ اس سے بظاہر یہ ذہن میں آتا ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف سے اس قسم کی دعاں اور کلمات کا محتاج ہے۔ حالانکہ بندے تو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کے محتاج ہیں۔ اس قسم کے الفاظ توحید کے منافی ہیں اور ان سے توحید میں نقص واقع ہوتا ہے۔پس ان الفاظ سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، اللہ تعالیٰ کے لیے بطور کلمہ تحسین یہ جملہ کہا کرتے تھے۔ ان کا قصدو ارادہ اگرچہ درست تھا لیکن اس کلمہ تحسین کے الفاظ، چونکہ ذات باری تعالیٰ کے شایان شان نہیں تھے بلکہ ان میں سوء ادبی تھی جو کہ اللہ عزوجل کی ربوبیت اور اس کے اسماء وصفات کے منافی ہے اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا اور ایسا کلمہ کہنے کو حرام قرار دیا۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ:’’ اہل جنت کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہی سلام ہو گا۔ قرآن کریم میں اس کی بھی تصریح موجود ہے کہ ربِّ کریم اہل جنت کو سلامتی کا پیغام دے گا۔ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں: ’’سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ‘‘ رب رحیم کی طرف سے اُن کو سلامتی کا پیغام ہے۔ (یٰسین: ۵۹)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور تمثیل سے پاک اور بے نیاز ہے وہ ایسا ربِّ کریم ہے جس میں کمال کی تمام صفات موجود ہیں اور ہر عیب اور نقص سے منزہ و مبرہ ہے۔