کتاب: نور توحید - صفحہ 195
اورجب غنی ؛ اور لطف و کرم کے معانی والے اسماء کا ذکر ہو تو دل اس کی بارگاہ میں نیازمندی اوربیقراری سے بھر جائے؛ اور انسان ہر حال میں اور ہر وقت اس کی طرف متوجہ رہے۔ یہ معارف دل کو تبھی حاصل ہوں گے جب انسان کو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کی معرفت ہوگی؛ او ران کے وسیلہ اللہ تعالیٰ کی بندگی ہورہی ہوگی۔ بندے کو دنیا میں اس سے بڑی کامل او رافضل سعادت کوئی اور نہیں حاصل ہوسکتی۔ بندے پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نوازشات میں سے ایک اس کی معرفت ہے۔ جو کہ توحید اور ایمان کی اصل بنیاد اور روح ہے۔ جب کسی انسان پر اللہ تعالیٰ اس معرفت کا دروازہ کھول دیں تو یقیناً اس کے لیے توحید خالص کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور کامل ایمان صرف ان لوگوں کو ہی حاصل ہو سکتا ہے جو کامل موحد ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ان اسماء و صفات کو ثابت ماننا اس سلسلہ کے مطالب عالیہ میں سے ہے۔ اور جہاں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں الحاد کا تعلق ہے؛ تو یہ اس عظیم مقصد کے بالکل منافی ہے۔ الحاد کی اقسام: ملحد یا تو ان اسماء کے معانی کی نفی کرتا ہوگا؛ جیسے جہمیہ او ران کے ماننے والے کرتے ہیں۔[[اللہ تعالیٰ کے تمام اسما وصفات کا یا ان میں سے بعض کا انکار کرنا جیسا کہ غالی(فرقہ)جہمیہ، اللہ کے کسی بھی نام یا صفت کو نہیں مانتے،وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ موجود ہے اور اس کا وجود برحق ہے لیکن بغیر کسی اسم اور صفت کے۔]] یا پھر ان صفات کو مخلوق کی صفات سے مشابہ قرار دیتے ہوں گے ؛ جیسے مشبہ اوررافضہ اور دیگر لوگ کرتے ہیں۔اس کے لیے یا تو وہ مخلوق کے نام اللہ تعالیٰ کے ناموں پر رکھتے ہیں ؛ جیسا کہ مشرکین نے کیا تھا کہ الہ سے لات اور العزیز سے العزی ؛ المنان سے مناۃ وغیرہ۔پس اللہ تعالیٰ کے اسماء گرامی سے ان کے لیے اسماء نکالتے[مشتق بناتے] ہیں۔ پھر انہیں اللہ تعالیٰ سے تشبیہ دیتے ہیں ؛اور پھر ان کے لیے عبادت میں سے کچھ ایسے حقوق مقرر کردیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں الحاد کی حقیقت اور خلاصہ یہ ہے کہ: اس کا مطلب اس کے ظاہری معنی سے لفظاً یا معنی ً یا تصریحاً یا تاویلاً یا تحریفاً دوسری طرف لے جانا اور کوئی دوسری مراد لے لینا۔ یہ سب کام توحید اور ایمان کے منافی ہیں۔ [1]
[1] علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ: ’’الحاد کی کئی صورتیں ممکن ہیں جیسے: ۱۔ اس کے اسماء و صفات سے بالکل انکار کر دیا جائے۔ یا ۲۔ان کے معانی و مفہوم کو ترک کر دیا جائے اور اِن کی تعطیل کو مانا جائے یا ۳۔ ان کے اصل مقصد میں تحریف کر کے کوئی دوسرا مفہوم پیش کر دیا جائے۔ یا ۴۔ صحت و صواب کو چھوڑ کر تاویلات کی طرف رجوع کر لیا جائے۔ یایہی نام مخلوق کے رکھ دیئے جائیں جیسے اہل اتحاد ملحدین نے کیاتھا یعنی انہوں نے یہی نام کائنات کی مذموم و محمودچیزوں کے رکھ دیئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کریم کے ننانوے نام ہیں ، جو شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں جائے گا، اللہ تعالیٰ ایک ہے اور طاق سے محبت کرتا ہے۔‘‘ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسمائے حسنیٰ صرف ننانوے کے عدد میں منحصر نہیں ہیں۔