کتاب: نور توحید - صفحہ 192
نیز ابن ابی حاتم ہی نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے﴿لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا﴾کی تفسیر میں بیان کیا ہے آدم و حوا کو خدشہ تھا کہ مبادا ہمارا بچہ انسان نہ ہو۔ حسن بصری اور سعید رحمہما اللہ وغیرہ اہل علم سے اسی قسم کے اقوال مروی ہیں۔
اس باب کے مسائل:
1۔ ہر وہ نام رکھنا جس میں غیر اللہ کی طرف عبدیت کی نسبت ہو،حرام ہے۔
2۔ سورہ اعراف کی آیت 190کی تفسیر بھی واضح ہوئی کہ شرکیہ نام رکھنا منع ہے۔
3۔ مذکورہ واقعہ میں آدم و حوا علیہا السلام کے جس شرک کا ذکر ہے وہ صرف بچے کا نام رکھنے کی حد تک تھا۔ حقیقی شرک نہ تھا۔
4۔ کسی کے ہاں صحیح و تندرست اولاد کی ولادت بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
5۔ اسلاف امت شرک فی الطاعت اور شرک فی العبادت کے مابین فرق کرتے تھے۔
اس باب کی شرح:
اولاد ملنے پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا
اس باب کے اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ بیشک جس کسی پر اللہ تعالیٰ انعام کرتے ہیں ؛ اور اولاد سے نوازتے ہیں ؛ اور پھر نعمت کو یوں مکمل کیا کہ اس اولاد کو جسمانی لحاظ سے بالکل صحت منداور تندرست بنایا۔اب اس نعمت کے شکرانے کا اتمام یہ ہے کہ ان کے دین کی اصلاح کی جائے۔ اور اللہ کی اس نعمت پر اس کا شکر بجا لایا جائے۔ اور اپنی اولاد کو کسی غیر اللہ کی بندگی کی طرف منسوب نہ کریں۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو غیر اللہ کی طرف منسوب کریں۔ بیشک ایسا کرنا کفران نعمت اور توحید کے منافی ہے۔ [1]
[1] غیر اللہ کی طرف عبدیت کی نسبت تمام انبیاءعلیہم السلام کی شریعتوں میں حرام رہی ہے کیونکہ اس سے نعمتوں کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہوجاتی ہے جبکہ نعمتوں کا انتساب صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جائز ہے۔ ربوبیت و الوہیت کا حق غیر اللہ کو دینے میں حد درجہ بے ادبی بھی ہے۔ نیز غیر اللہ کا بندہ کہلانا یا کسی کو غیر اللہ کا بندہ کہنامعنی کے لحاظ سے بھی غلط ہے۔
عبد المطلب: بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عبد المطلب نام رکھنا حرام نہیں صرف مکروہ (ناپسند)ہے جبکہ یہ قول درست نہیں۔ ان کا استدلال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہے جو آپ نے غزو حنین کے موقع پر فرمایا تھا۔ انا النبیِ لا کذِب انا ابن عبدِ المطلِب اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کا نبی ہوں اور میں عبد المطلب کا بیٹا (پوتا)ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دادا کا نام عبد المطلب بول کر اپنی نسبت ان کی طرف کی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عبد المطلب نام رکھنا درست ہے۔ مگر ان کا یہ استدلال غلط ہے کیونکہ نہ آپ نے اپنے دادا کی نسبت غیر اللہ کی طرف کی ہے نہ ان کو غیر اللہ کا بندہ کہا ہے بلکہ آپ نے تو اپنے دادا کا نام عبد المطلب صرف اس لیے لیا ہے کہ لوگوں میں یہی نام مشہور و معروف تھا۔ باقی رہا بعض صحابہ کا یہ (عبد المطلب )نام رکھنا تو اس بارے میں صحیح یہ ہے کہ ان کا نام عبد المطلب نہیں بلکہ صرف مطلب تھا۔ بعض راویوں کی غلطی سے وہ اصل نام(مطلب) کی بجائے عبد المطلب کے نام سے مشہور ہوگئے۔[ تفسیر ابن کثیر:364/2 اور السلسلہ الضعیفہ:رقم:342]