کتاب: نور توحید - صفحہ 19
…………………………………بقیہ حاشیہ………………………………………
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کے ساتھ وہ تمام پہلو بیان فرما دیئے ہیں جن سے ایک انسان کفر کے مذاہب سے کٹ کر اسلام کے حصار میں آجاتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ علیہ السلام اِلٰہ کا مطلب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: ’’الٰہ اس معبود کو کہتے ہیں جس کی عبادت و اطاعت کی جائے، کیونکہ اِلٰہ وہ ہے جس کی عبادت کی طرف دل از خود مائل ہو جائے، حقیقت میں یہی ذات عبادت کے قابل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی صفات کاملہ موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ محبوب خلائق ہو جاتا ہے اور مخضوع وہ ہے جس کے سامنے انتہائی خضوع کے ساتھ جھکا جائے۔ وہ ایسا محبوب اور معبود اِلٰہ ہے جس کی طرف قلوب پوری محبت سے کھنچ جاتے ہیں۔ اسی کے سامنے دل جھکتے ہیں، اسی کے سامنے عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں، اُسی سے ڈرتے ہیں اور اُسی سے اُمیدین وابستہ کرتے ہیں، مصائب و آلام اور مشکلات کے وقت اُسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، مشکل اوقات میں اُسی سے فریاد کرتے ہیں، اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے اُسی سے فریاد کرتے ہیں، اُسی کے ذکر سے دل اطمینان حاصل کرتے ہیں، اُسی کی محبت میں سکون پاتے ہیں۔ ان تمام صفات کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہی وجہ ہے کہ تمام کلاموں میں سچا کلام لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے حزب اللہ ہیں۔ اس کے منکر اور اس سے سرکشی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے دشمن اور اُس کے غضب و قہر کا شکار ہیں۔ جب یہ کلمہ صحیح ہو گیا تو اس کے ساتھ ہی تمام مسائل از خود حل ہو جائیں گے اور جس شخص کا یہ کلمہ ہی صحیح نہ ہوا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے علم اور عمل میں فساد پیدا ہو جائے گا۔
محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت:عبد کے معنی ہیں ایسا غلام جو عابد ہو۔ معنی یہ ہوں گے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے غلام ہیں جن کا خاصہ اور وصف عبودیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ﴾:[زمر۳۶] ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ‘‘؟ بارگاہِ الٰہی میں ایک انسان کا سب سے بلندترین مقام و مرتبہ یہ ہے کہ وہ رسالت اور عبودیت خاصہ سے متصف ہو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ دونوں صفتیں بدرجہء اَتم پائی جاتی ہیں۔ رہی ربوبیت اور اُلوہیت تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ ہیں اور یہ اسی کا حق ہے۔ جس میں کسی بھی صورت میں نہ کوئی نبی و رسول شریک ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ۔ عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دو صفتیں ایک ہی جگہ بیان کی گئی ہیں جو افراط و تفریط کو ختم کرتی ہیں۔ اکثر لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اُمت محمدیہ میں داخل ہیں لیکن وہ قول و عمل میں انتہائی افراط کا ثبوت دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو ترک کر کے تفریط سے کام لیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین پر عمل کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی ایسی ایسی غلط تاویلیں کرتے ہیں جن کو حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم کی شہادت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتائیں اس کی تصدیق کی جائے، جس کام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں اس کی تعمیل کی جائے، جس کام سے روک دیں اُسے چھوڑ دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کو ایسی اہمیت دی جائے کہ اس کے مقابلے میں کسی بات کو ترجیح نہ دی جائے۔ افسوس کہ ایسے قاضی اور مفتی جو کہ صاحب علم بھی ہیں وہ بھی اس کے خلاف عمل کر رہے ہیں۔
أن عیسیٰ عبداﷲ و رسولہ کا مفہوم: اس حدیث میں عیسائیوں کی تردید ہے۔ عیسائیوں کے تین گروہ ہیں:1۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی اللہ ہیں۔ 2۔ دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ 3۔ تیسرے گروہ کا قول یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تین میں سے تیسرے ہیں یعنی اللہ، عیسیٰ اور اُمّ عیسیٰ۔ رب ذوالجلال نے ان تینوں عقیدوں کی تردید فرمائی۔ حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دیا۔ارشاد فرمایا:﴿وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ﴾(النساء:۱۷۱)۔
’’اور نہ کہو کہ ’’تین‘‘ ہیں۔ باز آجاؤ۔ یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے۔ معبود تو بس ایک اللہ ہی ہے، وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو‘‘۔
اور فرمایا:﴿لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ﴾(المائدہ:۱۷) ’’یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے۔‘‘
مومن کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ یہودیوں کے اس بہتان کی تردید کرے۔ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور یہودیوں کے ان تمام لغو اور باطل عقائد سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بری الذمہ قرار دے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ایمان اور یقین رکھے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔
’’وکلمتہٗ‘‘: سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نام کلمہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے لفظ کُن کہہ کر پیدا فرمایا جیسا کہ سلف مفسرین کرام کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف جس کلمہ کو القا فرمایا وہ کلمہ ’’کُن‘‘ تھا۔ چنانچہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کلمہ ’’کُن‘‘ سے پیدا ہوئے، وہ خود کلمہ ’’کُن‘‘ نہ تھے۔ لہٰذا لفظ ’’کُن‘‘ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور اللہ کا کلمہ مخلوق نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں اور فرقہ جہمیہ دونوں نے اللہ پر جھوٹ اور افتریٰ باندھا۔[حاشیہ جاری ہے]