کتاب: نور توحید - صفحہ 189
پایا ہے۔‘‘ اس نے کہا: ’’ اگر تو کذب بیانی کرتا ہے تو اللہ پھر تجھے ایسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا۔‘‘
بعد ازاں وہ فرشتہ گنجے کے پاس اُسی کی صورت میں آیا۔ اس سے بھی وہی بات کی جو کوڑھی سے کی تھی اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو کوڑھی نے دیا تھا۔تو فرشتے نے اس سے کہا:’’ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھے پھر ویسا ہی کر دے جیسا کہ تو اُس سے پہلے تھا۔
پھر وہ فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اِسی کی شکل و صورت میں۔ کہا میں ایک مسکین اور مسافر ہوں۔ میرا تمام سامانِ سفر اور زادِ راہ ختم ہو چکا ہے۔ آج مجھے اپنی پہنچ کے لئے اللہ کی مدد اور پھر تیری امداد کے سوا کوئی اور ذریعہ دکھائی نہیں دیتا میں تجھ سے اُس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تجھے تیری بینائی لوٹائی، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں۔
’’ اس نے جواب دیا میں اندھا تھا، اللہ نے مجھے بینائی کی نعمت عطا فرمائی۔ تیرا جو جی چاہے لے لے اور جو جی چاہے چھوڑ دے۔ اللہ کی قسم آج تو جو کچھ بھی اللہ کے نام پر لے گا، میں اس میں تجھ سے کوئی جھگڑا نہ کروں گا۔ فرشتے نے کہا: ’’اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ تم آزمائے جا چکے۔ اللہ تجھ پر خوش ہو گیا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہو گیا‘‘[1]
اس باب کے مسائل
1۔ سورہ فصلت کی آیت 50 کی تفسیر واضح ہوئی۔[جس میں ناشکرے انسان کو وعید سنائی گئی ہے]۔
2۔ لیقولن ہذا لِی(کہ یہ تو میرا استحقاق تھا) کی تفسیر بھی واضح ہوئی۔
3۔ نیز اِنما أوتِیتہ علی عِلم عِندِی(یہ مال تو مجھے میرے علم اور تجربے کی بدولت ملا ہے) کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔
4۔ حدیث میں مذکور تین افراد کے اس نصیحت آموز واقعہ میں جو عظیم عبرتیں پوشیدہ ہیں، اس باب میں ان کا بیان بھی ہے۔
[1] (صحیح البخاری، احادیث الانبیا، باب حدیث ابرص و اعمی و اقرع فی بنی اسرائیل، ح:3464 وصحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للممن و جن للکافر، ح:2964)
اس میں بیشمار عبرتیں اور نصیحتیں مضمر ہیں غور فرمائیے کہ پہلے دو آدمیوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا اور نہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا اور نہ حقوق اللہ ادا کئے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب کا شکار ہو گئے۔ البتہ نابینا شخص نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کا فریضہ انجام دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کیونکہ اُس نے شکر کے ان تینوں ارکان پر عمل کیا جن کے علاوہ شکر کا وجود ہی ممکن نہیں۔ شکر کے تین ارکان یہ ہیں: ۱۔اقرارِ نعمت۔ ۲۔ انعامات کو منعم حقیقی کی طرف منسوب کرنا۔ ۳۔ انعام کرنے والے کی رضا کے مطابق انعامات کو خرچ کرنا۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’حقیقت شکر یہ ہے کہ انسان انتہائی عجز و انکساری سے اللہ کریم کے انعامات کا دِل سے اعتراف کرے اور دل کی گہرائیوں سے منعم حقیقی سے محبت رکھے کیونکہ جو شخص اپنی کم عقلی اور جہالت کی وجہ سے انعامات کی حقیقت کو نہیں سمجھتا وہ انعامات کا شکر ادا کیسے کر سکتا ہے؟ اور جو شخص انعامات کو تو پہچان لیا ہے لیکن منعم کو نہیں پہچانتا وہ بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔ اور جو شخص مندرجہ بالا تمام اُمور کو بطریق احسن انجام دیتا ہے وہی حقیقت میں شکر کا حق ادا کرتا ہے۔ شکر کے لئے دل میں علم ہونا، علم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان منعم کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اُس سے محبت کرتا ہے اور اُس کے سامنے عجز و انکساری سے پیش آتا ہے۔‘‘