کتاب: نور توحید - صفحہ 187
باب: وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِنْ بَعْدِ ضَرَّآئَ
باب: اگر ہم ان کو تکلیف کے بعد کوئی رحمت چکھادیں
[اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری، تکبر کی علامت اور بہت بڑا جرم ہے]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِنْ بَعْدِ ضَرَّآئَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ وَ مَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمۃً وَّ لَئِنْ رُّجِعْتُ اِلٰی رَبِّیْ اِنَّ لَیْ عِنْدَہٗ لَلْحُسْنٰی فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ﴾(فصلت:۵۰)
’’جونہی سخت وقت گزر جانے کے بعد ہم اُسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں، یہ کہتا ہے کہ ’’میں اسی کا مستحق ہوں اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی لیکن اگر واقعی میں اپنے رب کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا‘‘ حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازما ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں۔ اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔‘‘
امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر میں فرمایا:
((ھٰذَا بِعَمَلِیْ وَ اَنَا مَحْقُوْقٌ بِہٖ و قال ابن عباس رضی اللّٰهُ عنہ یُرِیْدُ مِنْ عِنْدِیْ۔))
’’ یہ مال و دولت تو میری محنت و کاوش کا نتیجہ ہے اور میں اس کا حق دار بھی ہوں۔(تفسیر الطبری)
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ میری اپنی کاوش ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ۔﴾[القصص 78]
’’کہا کہ مجھے یہ سب کچھ میری اپنی سمجھ کی نبا پر دیا گیا ہے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’علی عِلم مِنِ بِو جوہِ المکاسِبِ‘‘ یعنی اس نے کہا کہ یہ مال مجھے کمائی کے تجربے اور علم کی بدولت ملا ہے۔‘‘(تفسیر الدرالمنثور)