کتاب: نور توحید - صفحہ 185
تَسْتَھْزِئُوْنَ 0 لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃً بِاَنَّھُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ٭﴾[التوبۃ۶۵۔۶۶]
’’اور بلاشبہ اگر آپ ان سے پوچھیں تو ضرور ہی کہیں گے ہم تو صرف شغل کی بات اور دل لگی کر رہے تھے۔ فرمادیں: کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟۔ تم بہانے نہ بناؤ۔ یقینا تم نے ایمان لانے کے بعد(یہ بات کرکے)کفر کا ارتکاب کیا ہے؛ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر دیں تو ایک گروہ کو عذاب دیں گے، اس وجہ سے کہ یقینا وہ مجرم تھے۔‘‘
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف نہ التفات فرما رہے تھے نہ اس پر کچھ مزید فرمارہے تھے‘‘[1]
اس باب کے مسائل:
1۔ بہت بڑی بات کہ: جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا مذاق اڑائے، وہ کافر ہے۔
2۔ اس آیت کی تفسیر سے ثابت ہوا کہ ایسا کرنے والا خواہ کوئی بھی ہو، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتاہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے اخلاص اور چغلی کے درمیان فرق بھی واضح ہوا۔
4۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیز عفو و درگزر اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے میں فرق بھی واضح ہوا۔
5۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض عذر ناقابل قبول ہوتے ہیں۔
اس باب کی شرح:
جو ایسی چیز کا مذاق اڑائے جس میں اللہ کانام یا قرآن یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہو
ایسی حرکت ایمان کے بالکل منافی ہے؛ اور اس کی وجہ سے دین سے خروج لازم آتاہے۔ اس لیے کہ دین کی اصل بنیاد تو اللہ تعالیٰ ؛
[1] ’’اگرچہ ان منافقین نے اعتقادًا نہیں بلکہ صرف زبان سے کفریہ کلمات کہے تھے کہ ہم نے مذاق اور استہزا کے طور پر یہ کہا تھا، اس کے باوجوداللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ ان لوگوں نے ایمان کے بعد کفر کا ارتکاب کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات بینات سے مذاق کرنا کفر ہے مگر یہ اس شخص کے لئے ہو گا جس نے اس بات کا آغاز کیا۔ اگر ان لوگوں کے دل میں ایمان موجود ہوتا تو وہ لوگ اس قسم کی گفتگو نہ کرتے۔ قرآن کریم کی یہ بات باربار واضح کرتی ہے کہ دل سے ایمان کا اقرارکرنا ظاہری عمل کو مستلزم ہے جیسے ایک جگہ فرمایا ہے: (ترجمہ) ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑجاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔‘‘ (آیت ۵۱ تک)۔
زیرنظر واقعہ میں اس بات کو پوری طرح واضح کیا گیا ہے کہ بعض اوقات انسان کو کسی جملے یا عمل کی وجہ سے کافر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دِل کے ارادے انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ دل کی مثال اُس سمندر کی سی ہے جس کا ساحل نہ ہو۔ نفاقِ اکبر سے خوف بھی پیدا ہوتا ہے۔ ان منافقین کے ناگفتہ بہ جملہ کہنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو ثابت کیا ہے جیسا کہ ابن ابی ملکہ نے کہا تھا: ’’میں نے تیس ایسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہے جو اپنے بارے میں نفاق سے بہت ڈرتے تھے۔