کتاب: نور توحید - صفحہ 183
2۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے احترام کے پیش نظر غلط اور شرکیہ ناموں اور کنیتوں کو تبدیل کر دینا چاہیے۔ 3۔ کنیت کے لیے سب سے بڑے بیٹے کا انتخاب کرنا مستحب ہے۔ ان ابواب کی شرح: قاضی القضاۃ وغیرہ القاب کی شرعی حیثیت اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کااحترام ان دونوں ابواب کے عنوانات سابقہ باب کی فرع ہیں۔وہ یہ کہ یہ واجب ہوتا ہے کہ نیات ؛ اقوال ؛ افعال وغیرہ میں کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک اور ہم پلہ نہیں بنانا چاہیے۔ پس کسی ایک کا بھی ایسا نام نہ رکھا جائے جس سے کسی بھی طرح اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں کسی بھی معنی میں مشارکت کی بو آتی ہو۔ جیسے: قاضی القضاۃ؛ ملک الملوک[شہنشاہ]وغیرہ ؛ ایسے ہی حاکم الحکام[حاکموں کا حاکم] اور ابو الحکم وغیرہ نام بھی ہیں۔ یہ تمام اقدامات اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور توحید کی حفاظت کے لیے کئے جاتے ہیں۔ اور شرک کے تمام وسائل کا خاتمہ کیا ہے حتی کہ جن الفاظ سے یہ اندیشہ لگ رہا تھا کہ یہ بتدریج ایسا سبب بن سکتے ہیں کہ ان سے کسی ایک کے اللہ تعالیٰ کے اس کے حقوق اور خصائص میں شریک ہونے کی بو آنے لگے۔ [1]
[1] ایک موحد مسلمان کو اپنے دل میں اور زبان سے اللہ تعالیٰ کے اسما گرامی کا جو احترام ملحوظ رکھنا چاہیے اس باب میں اس کا بیان ہے۔ یہ احترام بسا اوقات مستحب اور بعض صورتوں میں واجب ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسما ء کے احترام کا تقاضا ہے کہ ان کی بے حرمتی نہ کی جائے اور وہ نام مخلوق میں سے کسی کے نہ رکھے جائیں۔ حکم اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ابو الحکم کا معنی ہوا حکم کا یعنی اللہ تعالیٰ کا باپ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تو کسی نے نہیں جنا اور نہ ہی وہ کسی سے جنا گیا۔ لہذا ایسی کنیت رکھنا جائز نہیں۔ ابوالحکم کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے فیصلے کرنے والا مگر چونکہ حقیقی اور درست فیصلے کرنے والا بھی حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انسانوں کے فیصلے عارضی اور وقتی ہیں۔ لہذا اس وصف کا اصل حقدار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس کے اسما و صفات کے احترام کے پیش نظر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالحکم کو ناپسندکر کے کنیت تبدیل کر دی۔