کتاب: نور توحید - صفحہ 180
باب: التسمی بقاضی القضاۃ و نحوہٖ باب: قاضی القضاۃ وغیرہ القاب کی شرعی حیثیت[1] صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اَخنَعَ اِسْمٍ عِنْدَ اللّٰهِ رَجُلٌ تَسَمّٰی مَلِکَ الْاَمْلَاکِ لَا مَالِکَ اِلاَّ اللّٰهُ۔)) قَالَ سُفْیَانُ مِثْلَ شَاھَانِ شَاہْ۔)) و فی روایۃ:((اَغْیَظُ رَجُلٍ عَلَی اللّٰهِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ اَخْبَثُہٗ۔)) قولہ: اَخْنَعَ یَعْنِیْ اَوْضَعَ۔)) ’’ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ حقیر شخص وہ ہے جو اپنے آپ کو شہنشاہ کہلاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی شہنشاہ نہیں ہے۔ سفیان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،جیسے شاہانِ شاہ۔ ایک روایت میں ہے: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب اور خبیث کے الفاظ بھی آئے ہیں۔‘‘ اخنع کے معنی سب سے زیادہ ذلیل و خوار۔‘‘ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الاملاک(بادشاہوں کا بادشاہ) کا ترجمہ شاہان شاہ یعنی شہنشاہ کیا ہے‘‘[2]
[1] [مصنف علیہ السلام نے کسی کو ’’قاضی القضاۃ‘‘ کہنے کی ممانعت میں یہ عنوان تجویز کیا ہے۔ آئندہ سطور میں آنے والی حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے خالق حقیقی سے مشابہت پائی جاتی ہے]۔ [2] مَلِکُ الْاَمْلَاکِ کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بولا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے بڑا، اور عظیم کوئی بادشاہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ مالک الملک ذوالجلال والاکرام ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور وہ بھی عارضی طور پر اور جب چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ زیر بحث حدیث میں ہر اُس امر سے ڈرایا گیا ہے جس میں اپنے آپ کو بڑا بنانے کا اظہار کیا گیا ہو۔ اس سلسلے میں سنن ابی داؤد میں ابن ابی مجلز سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا ابن زبیر اور ابن عامر رضی اللہ عنہما کے پاس تشریف لائے تو ابن عامر نے کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ لیکن ابن زبیر رضی اللہ عنہ بدستور بیٹھے رہے۔ یہ دیکھ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عامر سے کہا:’’ آپ بھی بیٹھ جائیں کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو شخص یہ چاہے کہ دوسرے لوگ اُس کے لئے کھڑے ہوں تو اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم قرار دے لینا چاہیے۔‘‘ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عصا پر ٹیک لگائے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عجمیوں کی طرح کسی کے لئے یوں کھڑے نہ ہوا کرو جس سے ایک دوسرے کی عظمت ہوتی ہو۔‘‘