کتاب: نور توحید - صفحہ 178
’’زمانہ کو گالی مت دو(برا بھلا مت کہو)کیونکہ در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے‘‘[1] اس باب کے مسائل 1۔ زمانے کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کی ممانعت ہے۔ 2۔ زمانے کو برا بھلا کہنا، اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ فإِن اللّٰه ہو الدہر(در حقیقت اللہ ہی زمانہ ہے)یہ جملہ ازحد قابل توجہ ہے۔ 4۔ بسا اوقات لاشعوری طور پر انسان سب وشتم کا مرتکب ہو جاتا ہے ا گر چہ وہ اس کا ارادہ نہ بھی کرے۔ اس باب کی شرح: جس نے زمانے کو گالی دی؛ اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی یہ ایسی برائی ہے کہ اہل جاہلیت اس کا بہت زیادہ شکار ہوا کرتے تھے۔ اور پھر بہت سارے فاسق و فاجر؛ مجنون اور بیوقوف لوگ ان کے پیچھے بن دیکھے ہی چل پڑے۔ جب زمانے میں ان کی مرضی کے خلاف کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو وہ زمانے اور وقت کو گالی دینے اوربرا بھلا کہنے لگتے ہیں ؛ بلکہ بسااوقات لعنت تک کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ دینی کمزوری ؛ حماقت ؛ اور بہت بڑی جہالت ہے۔ بیشک زمانہ بذات خود کسی بھی چیز کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔بیشک اس کی تدبیر کرنے اور اس میں مختلف قسم کے تصرف کرنے والی ہستی صرف اللہ تعالیٰ عزیز و حکیم کی ہستی ہے۔ ایسا کچھ کہنے سے درحقیقت یہ گالی اور عیب جوئی اس کے مدبر و متصرف پر واقع ہوتی ہے۔ مزید برآں جیسا کہ یہ معاملہ کمزور دین کی نشانی ہے؛ ایسے ہی یہ عقل کی کمزوری پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اسی وجہ سے تو مصائب بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اور جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو بہت گراں گزرتی ہے؛ اور اس کے سامنے واجب صبر کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز توحید رب العالمین کے منافی ہے۔
[1] حالات و واقعات کی نسبت زمانہ کی طرف کرنا مشرکین کا طریقہ ہے۔ جبکہ اہل توحید تمام امور کی نسبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف کرتے ہیں۔مشرکین عرب کا یہ دستورتھا کہ وہ زمانے کی مذمت کیا کرتے تھے۔ جب بھی اُن پر کوئی آفت اور مصیبت نازل ہو جاتی تو زمانے کو گالی دینا شروع کر دیتے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ان مصائب و مشکلات کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور کہتے کہ ہم کو زمانے کے نشیب و فراز نے تباہ کر دیا ہے۔ تو نتیجتاً ان کی گالیوں کا براہِ راست ہدف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی ہوتی کیونکہ حقیقی طور پر وہ تمام اُمور جو مشرک سرانجام دیتے ہیں ان کا فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا زمانے کو گالیاں دینے سے روک دیا گیا۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ زمانے میں خیر و شر کا وقوع ہو رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور اُس کے علم میں ہے اور اس کی حکمتوں کے مطابق ہو رہا ہے۔ جس میں کسی غیراللہ کو قطعی طور سے شرک نہیں ہے۔ کیونکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہو جاتا ہے اور نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔