کتاب: نور توحید - صفحہ 177
باب: من سب الدھر فقد اذی اللّٰه
باب: جس نے زمانے کو گالی دی؛ اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ قَالُوْا مَا ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا یُھْلِکُنَا اِلاَّ الدَّھْرُ وَ مَا لَھُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ھُمْ اِلاَّ یٍَظُنُّوْنَ﴾(الجاثیۃ:۲۴)۔
’’اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دُنیا ہی کی ہے ؛ مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے اور ان کو اس کا کچھ علم نہیں، صرف گمان سے کام لیتے ہیں ‘‘[1]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(قال اللّٰهُ تَعَالٰی: یُؤْذِیْنِی ابْنُ اٰدَمَ یَسُبُّ الدَّھْرَ وَ اَنَا الدَّھْرُ اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَ النَّھَار) [2]
’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ابن آدم زمانے کو گالیاں دے کر(برابھلاکہہ کر) مجھے ایذا پہنچاتا ہے کیونکہ(درحقیقت) میں ہی زمانہ(کا خالق اور مالک)ہوں۔ دن اور رات کو میں ہی تبدیل کرتا ہوں۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے:
(لَا تَسُبُّوا الدَّھْرَ فَاِنَّ اللّٰهَ ھُوَ الدَّھْرُ) [3]
[1] اس باب میں اس اہم بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ زمانے کو گالی دینا اللہ تعالیٰ کو ایذا رسانی کے مترادف ہے۔
[2] (صحیح البخاری، التفسیر، سورہ حم الجاثیۃ، باب وما یھلکنا الا الدھر، ح:4826 وصحیح مسلم، الالفاظ من الادب و غیرھا، باب النھی عن سب الدھر، ح:2246)
زمانہ کو گالی دینا یا برابھلا کہنا ہرگز جائز نہیں ؛ ایسا کرنا توحید کے منافی ہے؛اس سے اجتناب ضروری ہے۔ جہلاء کی عادت ہے کہ جب کوئی کا م ان کی مرضی کے خلاف ہو تو زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں اور اس دن، ماہ یا سال کو لعنتی یا منحوس قرار دے کر شریا برائی کی نسبت زمانہ کی طرف کرتے ہیں کہ زمانہ بڑا خراب ہے، بڑا خراب زمانہ آگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ زمانہ تو کوئی کام نہیں کرتا۔ زمانے میں حقیقی متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اور اس کا خالق بھی وہی ہے لہذا زمانے کو برا بھلا کہنااللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے۔ البتہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ سال بڑے سخت ہیں ، یہ دن بڑے سیاہ ہیں ، یہ مہینے بڑے منحوس ہیں تو اس قسم کے الفاظ پو کوئی مواخذہ نہیں کیونکہ ان سے متکلم کی مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے لیے یہ سال بڑے سخت ، یہ مہینے بڑے منحوس(نامبارک)یا یہ دن بڑے سیاہ ہیں۔ اس سے وہ زمانے کو برا نہیں کہتا بلکہ اپنے حالات بیان کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ الفاظ مذموم نہیں۔
[3] (البخاری ۵۸۲۸؛ صحیح مسلم، الالفاظ من الادب، باب النھی عن سب الدھر، ح:2246؛ أبو داؤد ؛ الأدب ۵۲۷۴ ؛ مؤطا امام مالک ۱۸۴۶۔ )