کتاب: نور توحید - صفحہ 175
سنن نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’ مَا شَآئَ اللّٰه وَ شِئْتَ ‘‘ جوکچھ اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا تم مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو۔‘‘ بلکہ کہو: صرف ایک اللہ نے چاہا ‘‘[1] سنن ابن ماجہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادر زاد بھائی سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: ((رَاَیْتُ فِیْمَا یَرَ النَّآئِمُ کَاَنِّیْ اَتَیْتُ عَلٰی نَفَرٍ مِّنَ الْیَھُوْدِ ؛ قُلْتُ: اِنَّکُمْ لَاَنْتُمْ الْقَوْمُ لوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰهِ۔ قَالُوْا: وَ اِنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ مَاشَآئَ اللّٰهُ وَ شَآئَ مُحَمَّدٌ۔ ثُمَّ مَرَرْتُ بِنَفَرٍ مِّنَ النَّصَارٰی فَقُلْتُ: اِنَّکُمْ لَاَنْتُمُ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ۔ قَالُوْا وَ اِنَّکُمْ لَاَنْتُمُ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ مَاشَآئَ اللّٰهُ وَ شَآئَ مُحَمَّدٌ۔ فَلَمَّا اَصْبَحْتُ اَخْبَرْتُ بِھَا مَنْ اَخْبَرْتُ؛ ثُمَّ اَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم فَاَخْبَرْتُہٗ۔ قَالَ ھَلْ اَخْبَرْتَ بِھَا اَحَدًا ؟۔ قُلْتُ نَعَمْ۔ قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰهَ وَ اَثْنٰی عَلَیْہِ؛ ثُمَّ قَالَ: اَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ طُفَیْلاً رَاٰی رُؤْیًا اَخْبَرَ بِھَا مَنْ اَخْبَرَ مِنْکُمْ وَ اِنَّکُمْ قُلْتُمْ کَلِمَۃً کَانَ یَمْنَعْنِیْ کَذَا وَ کَذَا اَنْ اَنْھَاکُمْ عَنْھَا فَلَا تَقُوْلُوْا مَاشَآئَ اللّٰهُ وَ شَآئَ مُحَمَّدٌ وَلٰکِنْ قُوْلُوْا مَاشَآئَ اللّٰهُ وَحْدَہٗ۔))[2] ’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس پہنچا میں نے کہا:تم بہتر لوگ ہو اگر سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہ کہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ تم بھی بہتر لوگ ہو اگر یہ نہ کہو کہ ’’جو اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔‘‘ پھر میں عیسائیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا،میں نہ کہا تم بہت اچھے لوگ ہو اگر سیدنا مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہ کہو۔ انہوں نے کہا کہ تم بھی اچھے لوگ ہو، اگر ’’جو اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہے‘‘ کے الفاظ نہ کہو۔‘‘ صبح ہوئی تو میں نے یہ بات کچھ لوگوں کو بتائی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ سے بھی یہ بات
[1] [سنن ابن ماجہ ؛ الکفارات (۲۱۱۷) أحمد (۱/ ۲۱۴)] اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ جو شخص کسی بندے کو اللہ کریم کے برابر قرار دے، اگرچہ یہ برابری شرکِ اصغر میں ہی کیوں نہ ہو گویا اُس نے اللہ تعالیٰ کا ’’ند‘‘ اور مثیل قرار دیا۔ خواہ یہ شخص مانے یا انکار کرے، اس سلسلے میں کم عقل اور جاہل لوگوں کی اس بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جن کا کہنا ہے کہ جب تک ہم غیر اللہ کی عبادت نہ کریں اور شرک اکبر و شرک اصغر میں سے کسی منع کردہ چیز کا ارتکاب نہ کریں اس وقت تک ہم مشرک نہ ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے ’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہے اُسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘ [2] [ابن ماجۃ الکفارات (۲۱۱۸) أحمد (۵/۷۲) الدارمی ؛ الاستئذان (۲۶۹۹)] پیش نظر حدیث میں جس خواب کا تذکرہ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے کیا ہے وہ سچا خواب تھا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق فرمائی اور اس کے مطابق عمل کرنے کی تاکید بھی فرمائی۔ اس حدیث میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت سے فرمایا: ’’وہی کام ہو گا جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ چاہیں گے، کہنا حرام ہے۔‘‘ بلکہ اس حدیث اور گزشتہ حدیث دونوں میں فرمایا کہ صرف ’’جو اللہ اکیلا چاہے کہا کرو۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ اس حدیث میں جس عمل پر حکم کرنے کو کہا گیا ہے وہ اخلاص کا مکمل اور اعلیٰ ترین مقام ہے اور شرک سے بہت دُور ہے۔ کیونکہ اِس میں اس توحید کی صراحت ہے جو شرک کے ہر پہلو کی نفی کرتی ہے۔ لہٰذا ہر عقلمند اور صاحب بصیرت شخص توحید اور اخلاص کے اعلی مقام کو ہی اپنے لئے پسند کرے گا۔