کتاب: نور توحید - صفحہ 172
باب: ما جاء فیمن لم یقنع بالحلف اللّٰه باب: اللہ تعالیٰ کی قسم پر اکتفانہ کرنے والے کا حکم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَحْلِفُوْا بِاٰبَآئِکُمْ مَنْ حُلِفَ لَہٗ بِاللّٰهِ فَلْیَصْدُقْ وَمَنْ حُلِفَ لَہٗ بِاللّٰهِ فَلْیَرْضَ وَ مَنْ لَّمْ یَرْضَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰه۔))[1] ’’ اپنے باپ دادوں کی قسمیں نہ کھاؤ۔ جو اللہ کی قسم کھائے وہ سچ بولے۔ اور جس کے لئے اللہ کی قسم کھائی جائے، اُسے راضی رہنا چاہیے اور جو راضی نہ ہو، وہ عباد اللہ(اللہ کے نیک بندوں) میں سے نہیں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھانا بھی صرف اسی صورت میں جائز ہے جب آدمی سچا ہو۔ اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائی جائے اسے چاہئے کہ وہ اس پر راضی ہوجائے یعنی قسم اٹھانے والے کی قسم پر اعتبار کرلے اور معاملہ اللہ کے سپرد کردے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھانا اس کی تعظیم کا اظہار ہے، لہذا اس کی تعظیم کا تقاضا ہے کہ اس کانام سن کر آدمی اعتبار کرے اور معاملہ اس کے سپرد کر دے۔ اور اسے خواہ مخواہ جھوٹا قرار نہ دے کیونکہ اگر وہ فی الواقع جھوٹا ہوا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔ اور جو شخص قسم پر راضی نہ ہو اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دلیل ہے کہ کسی سے قسم اٹھوا کر اس پر اکتفانہ کرنا اور اسے تسلیم نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے آباؤ اجداد کی قسمیں نہ اٹھاؤ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے اسے چاہیے کہ سچ بولے۔ اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائی جائے اسے چاہئے کہ وہ راض رہے، اور جو اس پر راض نہ ہو، اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ‘‘[2]
[1] (سنن ابن ماجہ، الکفارات، باب من حلف لہ باللہ فلیرض، ح:2101) [2] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کیا۔‘‘ ہر شخص کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اللہ کے نام کی جھوٹی قسمیں کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لیکن شرک تمام بڑے بڑے گناہوں سے زیادہ سنگین ہے اگرچہ شرکِ اصغر ہی کیوں نہ ہو۔ شرکِ اصغر جب تمام کبیرہ گناہوں سے زیادہ سنگین ہے تو اس سے شرکِ اکبر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو خلودِ جہنم کا موجب ہے۔