کتاب: نور توحید - صفحہ 171
اس باب کی شرح:
جب تم جانتے ہو تواللہ کا شریک نہ ٹھہراؤ
اس باب کا عنوان بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ ا للّٰهِ﴾(البقرہ:۱۶۵)
’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا شریک بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ کے ساتھ محبت ہونی چاہئے ‘‘[1]
’’اس سے مقصود شرک اکبر ہے؛ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو اس کا شریک بنایا جائے؛ اس سے محبت اورامید رکھی جائے؛ اور اس سے ڈرا جائے؛ اور دیگر عبادات بجا لائی جائیں۔
یہاں پر اس عنوان سے مقصود شرک اصغر کی وضاحت ہے؛ جیسے الفاظ میں شرک ؛ مثلاً: غیراللہ کے نام کی قسم اٹھانا؛ الفاظ بولنے میں اللہ اور مخلوق کو شریک کرنا؛ مثلاً یوں کہنا: اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا۔ اوریہ اللہ کی مہربانی اورپھر آپ کی مہربانی ہے۔ اور چیزوں ملنے اور واقعات کے واقع ہونے کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا؛ مثلاً یہ کہناکہ: اگر چوکیدار نہ ہوتا تو چور آجاتے۔ اوراگر فلاں دواء نہ ہوتی تو میں ہلاک ہو جاتا۔ اگرفلاں انسان کی اس کام میں مہارت نہ ہوتی تو وہ کوئی فائدہ نہ اٹھا سکتا۔ اس طرح کی ساری باتیں توحید کے منافی ہیں۔
انسان پر واجب ہوتا ہے کہ تمام امور اور واقعات کو؛ اور فوائداور اسباب کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور عنایت کی طرف ہی منسوب کرے۔ اور اس کے ساتھ سبب اوراس کا حصول بیان کرے۔ مثلاً یوں کہے: اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اورپھر فلاں نہ ہوتا تو … اورپھر یہ بھی جان لینا چاہیے کہ تمام اسباب کا کارگر ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے ماتحت ہوتا ہے۔
انسان اس وقت تک پکا اور سچا موحد نہیں ہوسکتا جب تک اپنے دل میں اور اپنے قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ترک کردے۔
[1] جناب عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے بارے میں کہا ہے کہ ’’انداد شرکِ مخفی ہے جیسے کہ سیاہ چیونٹی اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر چلے اور وہ اس طرح کہ تم کہو، اللہ کی قسم، تیری ماں کی قسم، اے فلانی، میری جان کی قسم۔ اور یہ کہے کہ اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو ہمارے ہاں چور آجاتے اور اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی تو ہمارے ہاں چور آجاتے۔ اور یہ کہ انسان اپنے ساتھی سے کہے ’’جو اللہ چاہے اور تم چاہو‘‘ اور یہ کہ ’’اللہ اور فلاں شخص نہ ہوتا‘‘ تو اس میں ’’فلاں ‘‘ نہ رکھ کیونکہ یہ سب باتیں اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تعریف میں آتی ہیں۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ سب شرک ہے اور اِس دَور میں اس قسم کے الفاظ لوگ کثرت سے استعمال کرتے ہیں جو نہ توحید کی معرفت رکھتے ہیں اور نہ شرک کی سنگینی سے واقفیت۔ لہٰذا ہر شخص کو ان اُمور سے بچتے رہنا چاہیے کیونکہ یہ گنا اکبر الکبائر میں سے ہیں اس لئے ان سے سختی سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے۔