کتاب: نور توحید - صفحہ 169
باب: فَلَا تَجْعَلُوْ ِللّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ باب: جب تم جانتے ہو تواللہ کا شریک نہ ٹھہراؤ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَلَا تَجْعَلُوْ ِللّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾(البقرۃ) ’’پس جب تم جانتے ہو تو اللہ کا شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: ’’أ نداداًسے مراد شرک ہے جو رات کے اندھیرے میں سیاہ پتھر پر چیونٹی کے چلنے سے بھی زیادہ مخفی ہے۔ مثلا یوں کہنا واللّٰهِ و حیاتِک(اللہ تعالیٰ کی قسم اور تیری زندگی کی قسم) یا فلان و حیاتکِ(اے فلاں! تیری جان کی قسم) لو لا کلیبۃ ہذا لأ تانا اللصوص(اگر اس شخص کی کتیانہ ہوتی تو ہمیں چور آلیتے۔) لو لا البط فيِ الدارِ لأ تانا اللصوص(اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی تو ہمیں چور آلیتے) یا کسی سے یہ کہنا کہ: ما شا اللّٰه وشِئت(وہی ہو گا جو اللہ چاہے گا اور تم چاہوگے) لو لا اللّٰه و فلان(اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا تو ....) اس قسم کی تمام باتیں شرک ہیں۔‘‘[رواہ ابن ابی حاتم] ’’ تم اس قسم کی باتوں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کا نام نہ لو۔ یہ سب شرکیہ باتیں ہیں ‘‘[1] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ حَلَفَ بِغَیرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ) [2]
[1] (تفسیر ابن ابی حاتم ، رقم229،تفسیر ابن کثیر:94/1) توحید کی حقیقت: توحید کی اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا کوئی شریک ہو نہ کوئی ساجھی۔ مثلا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام کی قسم اٹھانا یا یوں کہنا کہ وہی ہو گا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور فلاں چاہیگا۔ یہ بھی شرک ہے۔ ایسے مواقع پر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا نام لینا چاہیے۔ توحید کا اولین اور کامل ترین درجہ یہ ہے کہ یوں کہا جائے اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہتا تو فلاں کام نہ ہوتا۔ البتہ یوں کہنا جائز ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہتا اور پھر فلاں آدمی کا تعاون نہ ہوتا تو میرا فلاں کام نہ ہوسکتا۔ اس صورت میں فلاں[غیر اللہ]کا مرتبہ اللہ تعالیٰ سے کم تربیان ہوا ہے، اس لیے ایسا کلمہ جائز ہے۔ یہ اصل توحید کے منافی تو نہیں البتہ توحید کے اعلی درجے کے منافی ہے۔ لیکن اگر یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ اور فلاں نہ چاہتا تو یہ کام نہ ہوتا۔ یہ قول ناجائز اور حرام بلکہ شرک ہے۔ [2] جامع الترمذی, ِکتاب الإیمانِ والنذورِ؛ باب فِی کراہِیۃِ الحلفِ بِالآباِء ح:1535 المستدرک للحاکم: 1/ 18۔حسنہ الترمذی و صححہ الحاکم۔