کتاب: نور توحید - صفحہ 167
((أصبح مِن عِبادِی مؤمِن بِی وکافِر)) [1]
’’ آج صبح میرے بندوں میں سے کچھ تو مجھ پر ایمان لے آئے اور کچھ کافر ہوگئے‘‘[2]
یہ حدیث باب نمبر 29میں گزر چکی ہے۔ کتاب و سنت میں یہ بات بکثرت وارد ہے،کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے انعام اور رحمت کو کسی غیر کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ اور اس بات کی وضاحت کے لیے بعض اسلاف نے یہ مثال بیان کی ہے:
’’ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ:’’ ہوا بہت ہی خوب تھی، ملاح ماہر اور تجربہ کار تھا، وغیرہ جو الفاظ زبان زدعام ہوتے ہیں۔‘‘(سب ناجائز ہیں کیونکہ اس طرح کہنے سے اللہ کی نعمت کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہوجاتی ہے) [3]
اس باب کے مسائل:
1۔ یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار یا انکار کس طرح ہوتاہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے انکار کی یہ صورتیں بالعموم لوگوں کی زبانوں پررائج ہیں۔
3۔ اس قسم کی باتیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے انکار کے مترادف ہیں۔
4۔ ایک دل میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار اور انکار، دونوں کا اجتماع ممکن ہے۔
اس باب کی شرح:
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان کرپھر انکار کرتے ہیں
مخلوق پر واجب یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی نعمت کواس کے اقرار و اعتراف کے ساتھ اس کے انعام کرنے والے اللہ رب العالمین کی
[1] (صحیح البخاری, ِکتاب الأذانِ, ح:810؛ و صحیح مسلم,ِکتاب الإِیمانِ, ح:71؛ نسائی 1525)
[2] یعنی جب انہیں کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو ان کے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگتی ہے کہ ہم اپنے اولیا، انبیا، بتوں یا معبودان[باطلہ]کے پاس گئے تھے ان کی پوجا کرکے انہیں خوش کیا تھا تب انہوں نے ہمارے حق میں سفارش کی تو ہمیں یہ بھلائی اور خیر حاصل ہوئی۔ یعنی وہ اپنے جھوٹے خداؤں کو تو یاد کرتے ہیں لیکن اس اللہ عزوجل کو بھول جاتے ہیں جس نے یہ فضل اور انعام کیا ہے۔ انہیں یہ سمجھ تک نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ ایسی شرکیہ سفارشیں قبول نہیں کرتا جنہیں وہ یاد کرتے پھرتے ہیں۔
[3] (فتاوی ابن تیمیہ جلد 8 ص 33)
یہ بہت اہم مسئلہ ہے لوگوں کو اس کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور تنبیہ کرنی چاہئے تاکہ وہ شرک کے مرتکب نہ ہوجائیں۔ ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات اس قدر ہیں کہ شمار سے باہر، اس لیے ہمارا یہ فرض اور حق ہے کہ اس کے انعامات کی نسبت اسی کی طرف کریں اور انہیں یاد کرکے اس کا شکریہ ادا کریں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کا سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ ان کی نسبت اسی مالک کی طرف کی جائے جس کی یہ نوازش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:﴿وأما بِنِعمۃِ ربِک فحدِث ﴾[ الضحی11]
’’اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہیے۔‘‘یعنی یہ کہتے رہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے یہ اس کی نعمت ہے اور یہ اس کا احسان ہے کیونکہ جب دل مخلوق میں سے کسی کی طرف مائل ہونے لگتا ہے تو انسان شرک کا مرتکب ہوجاتا ہے اور شرک سراسر توحید کے منافی ہے۔