کتاب: نور توحید - صفحہ 166
باب: قول اللّٰه تعالی: یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ یُنْکَرُوْنَھَا باب: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان کرپھر انکار کرتے ہیں [اللہ تعالیٰ کے اِحسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو ماننے کے لئے تیار نہیں]۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ یُنْکَرُوْنَھَا وَ اَکْثَرُھُمُ الْکَافِرُوْنَ﴾(النحل:۸۳) ’’ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں پھر ان کا انکار کرتے ہیں اور ان میں اکثر لوگ ناشکرے ہیں ‘‘[1] اس آیت کی تفسیر میں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ انسان کا یوں کہنا کہ یہ مال تو مجھے آباء و اجداد کی طرف سے ورثہ میں ملا ہے، اللہ کی نعمت کا انکار ہے۔[2] عون بن عبد اللہ فرماتے ہیں لوگوں کا یہ کہنا کہ:’’ اگر فلاں نہ ہوتا تو یوں ہوجاتا، اللہ کی نعمت کا انکار ہے‘‘[3] ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لوگوں کا یہ کہنا کہ:’’ یہ ہمارے معبودوں کی سفارش کا صلہ ہے،بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کا انکار ہے۔[4] شیخ الاسلام ابو العباس ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[1] انسان کو چاہئے کہ وہ یہ یقین رکھے کہ تمام کی تمام نعمتیں ، اللہ ہی کی طرف سے ہیں اور توحید بھی تب ہی مکمل ہو سکتی ہے جب ہر نعمت کی نسبت اللہ عزوجل کی طرف ہی کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نسبت ، غیر اللہ کی طرف کرنا توحید میں نقص اور شرک اصغر ہے۔ اسی لیے اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿وما بکِم مِن نِعمۃ فمِن اللہِ﴾[ النحل: 53]اور تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ ہی کی صرف سے ہیں۔ [2] یہ بات توحید کے منافی اور شرک ہی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ ایسا کہنے والے شخص نے مال و دولت کی اس عظیم نعمت کی نسبت اپنی طرف اور اپنے آبا اجداد کی طرف کردی جبکہ فی الواقع یہ مال ، اللہ عزوجل ہی نیاس کے آبااجداد کو دے رکھا تھا پھر اسی رب کی تقسیم سے ، جو اس نے وراثت کی صورت میں کی ، اس بندہ مومن تک یہ مال پہنچا تو گویا یہ سب ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے والد کو اولادتک مال پہنچانے کا ایک سبب اور ذریعہ بنایا ہے اور اسی لیے وراثت کی تقسیم میں والدیا کسی بھی صاحب مال کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے اس کا وارث اور حق دار بنا دے کیونکہ درحقیقت اس مال کا مالک وہ نہیں بلکہ اللہ عزوجل ہے۔ جسے وہ چاہے گا وہی اس کا وارث اور مالک بنے گا۔ [3] مثلا یہ کہنا کہ اگر فلاں پائلٹ اپنی مہارت نہ دکھاتا تو ہم سیدھے تباہی ک طرف جارہے تھے[گویا ان کے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں تباہی سے بچانے والا یہی پائلٹ ہی ہے] اسی طرح کے دیگر وہ الفاظ جن میں کسی کام کی نسبت اس کام کے سبب اور واسطے کی طرف کردی جائے، ناجائز ہیں ، خواہ وہ واسطہ انسان ہو یا کوئی جماد ؛یا اللہ کی مخلوقات میں سے کوئی اور مخلوق۔ جیسے بارش ، پانی اور ہوا وغیرہ ہیں۔‘‘ [4] (تفسیر ابن جریر الطبری)