کتاب: نور توحید - صفحہ 164
نہیں ؛لگی اور وہ اسے اجنبی سا محسوس کر رہا ہے تو یہ منظر دیکھ کر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:
’’ ان لوگوں کا ڈر عجیب ہے کہ اللہ کی محکم آیات سن کر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور متشابہ آیات سن کر(اور نہ مان کر)ہلاکت میں پڑتے جارہے ہیں ‘‘[1]
اور جب قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رحمن کا ذکر سنا تو انہوں نے اس کا انکار کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں آیت نازل فرمائی:
﴿وَ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ …﴾(الرعد:۳۰)
’’اوروہ رحمن کا انکار کرتے ہیں ؛ …‘‘[2](تفسیر ابن جریر الطبری)
اس باب کے مسائل:
1۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء یا صفات میں سے کسی چیز کے انکار سے ایمان ختم ہوجاتا ہے۔
2۔ سورہ رعد کی آیت 30 کی تفسیر بھی واضح ہوئی۔[جس میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن کا تذکرہ ہے]۔
3۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بات سننے والے کے فہم سے بالا تر ہو اسے بیان نہیں کرنا چاہیے۔
4۔ اس کی وجہ بھی بیا ن ہوئی کہ اس سیسننے والا، اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کا خواہ مخواہ مرتکب ہوجاتا ہے اگرچہ اس کا قصدو ارادہ تکذیب کا نہ بھی ہو۔
5۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کسی نام یا صفت کا انکار ہلاکت و تباہی کا سبب ہے۔
اس باب کی شرح:
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے منکر کا حکم
[1] (مصنف عبدالرزاق، رقم 20895۔یہ شخص اس حدیث کو اجنبی سامحسوس کرکے کانپ گیا۔ اس نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں مخلوق کے ساتھ مماثلت اور تشبیہ پائی جاتی ہے۔ اسی مماثلت اور تشبیہ کا تصور اس کے ذہن میں آنے سے اس کے دل میں اس صفت الٰہی کا خوف اور ڈر پیدا ہوگیا، حالانکہ ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے کہ وہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت، قرآن و حدیث میں پڑھے یا سنے تو اس کا وہی مفہوم لے جو دیگر صفات کا لیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کو اس طرح سے ثابت کیا جائے کہ اس میں مخلوق کے ساتھ کسی طرح سے کوئی تشبیہ اور تمثیل نہ دی جائے اور نہ ہی اس کی کوئی کیفیت بیان کی جائے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس شخص کی کیفیت کو محسوس کرکے تعجب کا اظہار کیا کہ یہ لوگ کیسے عجیب ہیں کہ جب ایسی بات سنتے ہیں جس کا انہیں علم ہوتا ہے تو ان کے دلوں میں رقت آجاتی ہے اور جب کتاب و سنت کی کوئی ایسی بات سنتے ہیں جو ان کی عقلوں سے بالا تر ہوتی ہے تو اس پر ایمان بالغیت رکھنے کے بجائے اس کی غلط تاویل ، نفی اور انکار کرکے خود کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالتے پھرتے ہیں۔
[2] الرحمن۔اللہ عزوجل کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ مشرکین و کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ ہم تو صرف یمامہ (علاقہ)کے رحمن کو جانتے ہیں ، اس کے سوا کسی رحمن کو نہیں جانتے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نام ، رحمن کا انکار کیا اور اس طرح وہ ذات باری تعالیٰ کے منکروکافر ہوئے اسی لیے اللہ عزوجل نے فرمایا:﴿وَ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ … ﴾’’ وہ رحمن کے ساتھ کفر کرتے ہیں ‘‘۔ لفظ الرحمن اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر نام بیک وقت دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے ایک تو ذات باری تعالیٰ اور دوسری ، وہ صفت جس کا مفہوم ، یہ نام اداکرتا ہے۔