کتاب: نور توحید - صفحہ 163
باب: مَنْ جَحَدَ شَیْئًا مِّنَ الْاَسْمَآئِ وَ الصِّفَاتِ باب: اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے منکر کا حکم[1] ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ قُلْ ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ مَتَابِ﴾(الرعد:۳۰) ’’اوروہ رحمن کو نہیں مانتے، ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے۔‘‘ صحیح بخاری میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ((حَدِّثُوْا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُہٗ۔)) ’’ لوگوں کو وہی باتیں بتا جنہیں وہ جان سکیں۔(جو باتیں ان کے فہم و شعور سے بالاہوں وہ سنا کر) کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا جائے‘‘[2] عبد الرزاق نے معمرسے روایت کیا ہے؛ وہ ابن طاؤس سے اوروہ اپنے والد سے وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ نے ایک شخص کو دیکھا؛ جسے صفات باری تعالیٰ کے بارے میں ایک حدیث سن کر یوں کپکپی آگئی گویا اسے یہ حدیث اچھی
[1] اس باب کا توحید کے مسائل کے ساتھ دوطرح سے ربط اور تعلق ہے: الف۔ الوہیت کی طرح اللہ تعالیٰ اپنے اسماء اور اپنی صفات میں یکتا اور اکیلا ہے۔ اس کی کسی صفت میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ ب۔اللہ تعالیٰ کے کسی اسم یا کسی صفت کا انکار کرنے سے انسان شرک و کفر کا مرتکب اور دائر اسلام سے خارج قرار دیا جاتا ہے۔ جب کسی انسان کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا فلاں اسم اور فلاں صفت ثابت ہے اور اسے خود اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے، پھر وہ اس کا انکار اور اس کی نفی کردے تو وہ کفر کا مرتکب ہوگا کیونکہ اس نے کتاب و سنت کی تکذیب کردی اور اسے جھٹلادیا ہے۔ [2] صحیح بخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما....، رقم127۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ بعض علمی باتیں ہر کسی کو بتانے کے قابل نہیں ہوتیں۔ مثلا توحید اسما وصفات کے وہ دقیق مسائل جنہیں سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ، ان کے متعلق عوام سے یہی کہا جائے گا کہ وہ ان پر اجمالی طور پر ایمان رکھیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا انکار کرنے کا یک سبب یہ بھی ہے کہ بسا اوقات کوئی آدمی لوگوں کے سامنے اسماء وصفات سے متعلقہ کوئی ایسی بات کردیتا ہے جسے سمجھنے سے وہ یکسر قاصر ہوتے ہیں ؛لہذاوہ سرے سے اس کا انکار ہی کر ڈالتے ہیں۔اہل علم پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے منکر نہ بنائیں ؛ اور ایسی باتیں ہرگز بیان نہ کریں جنہیں سمجھنے سے وہ بالکل قاصر ہوں اور ان کی عقلیں وہاں تک رسائی نہ کر سکتی ہوں جس کے نتیجہ میں وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو جھٹلانے والے اور ان کی تکذیب کرنے والے بن جائیں۔