کتاب: نور توحید - صفحہ 160
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ﴾(البقرۃ:۱۱) ’’جب کبھی اُن سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو اُنہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘ اور مزید فرمایا: ﴿وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَ ادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾(الاعراف:۶۵) ’’ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اِصلاح ہو چکی ہے اور اللہ ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے‘‘[1] نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُوْقِنُوْنَ﴾(المآئدۃ:۵۰) ’’ تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ‘‘[2] حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا یؤمِن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعاً لِما جِئت بِہِ۔))[3] ’’ تم میں سے کوئی اس وقت تک(کامل)ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی تمام تر خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہو جائیں جسے میں لایا ہوں۔‘‘ حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک منافق اور یہودی کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ یہودی جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رشوت نہیں لیتے۔ اس نے کہا ہم یہ معاملہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اور منافق نے کہا: ہم یہ معاملہ یہود کے پاس لے چلتے ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہودی رشوت لیتے ہیں۔ آخر کار دونوں اس بات پر راضی ہوگئے کہ بنوجہینہ کے ایک کاہن سے فیصلہ کرالیا جائے۔ تو اس موقع پر سورہ نسا کی آیت نازل ہوئی:﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْن﴾(ترجمہ، باب کے آغاز میں گزر چکا ہے۔) بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ:
[1] غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرنے اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہرا نے سے زمین میں فساد برپاہوتا ہے۔جب کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور توحید کے ساتھ زمین میں امن و امان ہوتا ہے۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ زمین میں شرک پھیلانے اور اس کے اسباب و وسائل کو اختیار کرنے کی سعی و کوشش کرنا منافقوں کی خصلت ہے اور اس سے بدتر یہ کہ وہ فساد کرنے کے باوجود اپنے آپ کو امن پسند اور اصلاح پسند کہتے ہیں۔ [2] دور جاہلیت کاطریقہ کاریہ ہوتا تھا کہ جو جس کو چاہتا اسے اپنا حکم اور منصف مان لیتا اور وہ منصف اپنے ہی وضع کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرتا۔ گویا جاہلیت کے قوانین کے مطابق فیصلے کرنا اور کرانا ایک بشر اور انسان کو حکم اور منصف بنانا ہے اور اسے حکم و منصف بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر اسے مطاع، لائق اطاعت اور اللہ عزو جل کے ساتھ شریک ٹھہرایا گیا ہے جو شرک اور باطل ہے۔ [3] (قال النووی فی الاربعین، ح:41 حدیث صحیح رویناہ فی کتاب الحج باسناد صحیح)