کتاب: نور توحید - صفحہ 16
ہیں ؛ ان سب کو ثابت مانتے ہیں۔ اورکتاب و سنت میں وارد ان کے معانی اور احکام کو ایسے ہی تسلیم کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کی عظمت جلال و جمال اور کمال کے لائق ہیں۔ ان میں سے نہ ہی کسی چیز کی نفی کرتے ہیں ؛ نہ ہی تعطیل و تمثیل اور تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور ان تمام امور کی نفی کرتے ہیں جن کی نفی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی پاک ذات سے کی ہے؛ یاپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عیوب اور نقائص کی اللہ تعالیٰ کی ذات سے نفی کی ہے جو اس کی ذات کے کمال کے منافی ہیں۔[1]
دوسری قسم: توحید ربوبیت: انسان کو اس بات کا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ بیشک اللہ تعالیٰ مخلوق کوپیداکرنے میں ؛ انہیں رزق دینے میں اور ان کے امور کی تدبیر میں اکیلے وحدہ لاشریک ہیں۔ وہ ہی تمام مخلوقات کی پرورش اپنی نعمتوں سے کرتے ہیں۔ اور اپنی خاص مخلوق -انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کی خاص تربیت صحیح عقائد اور اعلی اخلاقیات؛ اور نفع بخش
[1] شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ’’فتح رب البریہ بتلخیص الحمویۃ؛ ازمجموع فتاوی ۴/۱۹؛ میں فرماتے ہیں: اہل سنت و الجماعت وہ لوگ ہیں جن کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور عمل کو قول عمل اور عقیدہ میں ظاہری اور باطنی طور پر من و عن تسلیم کیاجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں ان کا طریقہ کار یہ ہے:
۱۔ اثبات میں: اللہ تعالیٰ کے لیے ان چیزوں کو ثابت مانا جائے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اپنی کتاب میں بیان کی ہیں ؛ یہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کی ہیں ؛ ان پر بغیر کسی تحریف کے ؛ بغیر تعطیل کے اور بغیر تمثیل اور تکییف[مثال اور کیفیت بیان کرنے ]کے ایمان رکھتے ہیں۔
۲۔ نفی میں: ان کا طریقہ یہ ہے کہ ہر اس چیز کی نفی کرتے ہیں جس کی نفی خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے اپنی کتاب میں کی ہے؛ یا پھر اپنے رسول کی زبانی اس کی نفی کی ہے؛اور اس کے ساتھ ہی وہ اس کے برعکس صفات کمال کو اللہ تعالیٰ کے لیے ہر لحاظ سے کامل تسلیم کرتے ہیں۔
۳۔ وہ چیزیں جن کے اثبات یا نفی میں کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی؛ اور اس میں لوگوں کا اختلاف واقع ہوا ہے؛ جیسے: جسم ؛ حیز؛ اور جہت؛ اور اس طرح کے دیگر امور؛ تو ان کے بارے میں ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان الفاظ کے استعمال کرنے میں توقف اختیار کرتے ہیں۔ پس نہ ہی وہ ان چیزوں کو ثابت مانتے ہیں اور نہ ہی ان کی نفی کرتے ہیں ؛ کیونکہ اس بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی۔ جہاں تک ان الفاظ کے معانی کا تعلق ہے ؛ تو وہ ان کی تفصیل طلب کرتے ہیں ؛ اگر اس سے مراد ایسی باطل چیز ہو جس سے اللہ تعالیٰ منزہ ہیں ؛ تو وہ اس کو رد کرتے ہیں۔ اور اگر اس سے مراد ایسا حق ہو جو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ممتنع نہیں ہوسکتا تو وہ اس کو قبول کرتے ہیں۔ یہ طریقہ کار اختیار کرنا واجب ہے۔ اوریہی معطلہ اور ممثلہ کے عقائد کے مابین متوسط اور مبنی بر حق عقیدہ ہے۔ اورعقلی و نقلی دلائل اس طریقہ کے واجب ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
جہاں تک عقل کا تعلق ہے؛ تو اس کی دلالت کی وجہ یہ ہے جوامور اللہ تعالیٰ کے حق میں واجب ؛ جائز اور ممتنع ہیں ان کی تفصیل سمعی دلائل یعنی نصوص شریعت کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی۔تو ان کے بارے میں نصوص کی اتباع ہی واجب ہے۔ تو اسی میں سے وہ امور میں بھی جن کی نفی یا اثبات وارد ہوا ہے؛ اور جن کے بارے میں شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے؛ ان کے متعلق انسان خاموش ہی رہے۔ جہاں تک نقلی دلائل کا تعلق ہے؛ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾[الاعراف ۱۸۰]’’ اور اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں ، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کی بابت سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں ، انھیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ ﴾(شوری 11)
’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْم﴾[ الاسراء ۳۶]
’’اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔‘‘
پہلی آیت بغیر تحریف و تعطیل کے اسماء کے اثبات پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ تعطیل اور تحریف یہ دونوں کام الحاد ہیں۔
دوسری آیت: تمثیل کی نفی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔
تیسری آیت: کیفیت کے بیان کی نفی کرتی ہے؛ اورن امور کی نفی یا اثبات میں توقف کو واجب کرتی ہے جن کے بارے میں کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔
ہر وہ چیز جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ثابت ہے؛ خواہ وہ اسماء میں سے ہو یا صفات میں سے ؛ بیشک وہ صفات اپنی انتہائی کمال کی ہوتی ہیں ؛ جن پر اس کی حمد و ثناء بجا لانی چاہیے۔