کتاب: نور توحید - صفحہ 159
باب: اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا باب: بعض ایمان کادعوی کرنے والوں کی حقیقت[1] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا٭ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا ٭ فَکَیْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ ثُمَّ جَآئُ وْکَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا﴾[النساء ۶۰۔۶۲] ’’اے نبی! آپ نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں: ہم آپ پر نازل کردہ کتاب پر ایمان لائے ہیں ؛ اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کیلئے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ اُنہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دُور لے جانا چاہتا ہے۔جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آؤ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، تو اُن منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔ پھر اُس وقت کیا ہوتا ہے جب ان کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت اُن پر آن پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہو جائے‘‘[2]
[1] اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا تقاضا ہے کہ حکم اور فیصلے میں بھی ہی اکیلا اور وحدہ لاشریک لہ سمجھا جائے۔ اطاعت کا حقدار صرف اللہ عزوجل کو جانیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی کو سچ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندے اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق باہمی فیصلے کریں۔ جاہلیت کے قوانین اور ضوابط کے مطابق فیصلے کرنا ترک کردیں کیونکہ یہ بہت بڑا کفر اور توحید کے منافی امر ہے۔ [2] ان لوگوں کا اپنے مقدمے کوفیصلہ کروانے کے لیے طاغوت(غیر اللہ)کے پاس لے جانا؛اور ساتھ ساتھ یہ دعوی کرنا کہ وہ قرآن اور اس سے سابقہ تمام آسمانی کتب پر ایمان رکھتے ہیں ، جھوٹ اور حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ ایمان ، اور طاغوت سے فیصلہ کروانے کی خواہش رکھنا دونوں ایسے باہمی متضاد امور ہیں کہ ان دونوں کا یکجا جمع ہونا ناممکن ہے۔